جلد و ماہ تو گھر سے نکلا
جلد و ماہ تُو گھر سے نکلا
شکر ہے چاند کدھر سے نکلا
سامنا چھوڑ نا دینا خورشید
خنجر اس مہ کی کمر سے نکلا
ترا عاشق تُو نہ تھا او لیلہ
کوئی مجنُوں سا ادھر سے نکلا
مثل بو رخ نا کیا سوئے چمن
پھر نا آیا میں جدھر سے نکلا
دِل نے پھر تُجھ سے لگائی ہو نہ لو
آہ پھر شعلہ جگر سے نکلا
کس کی آنکھوں پہ چڑھا تھا کے یہ دِل
ہو کہ خوں دیدۂ تر ث نکلا
زلف تک ہاتھ تُو پہونچا بارے
سلسلہ موئے کمر سے نکلا
سیر گل رویوں کی کرتا ہوگا
ہے نسیمؔ آج سحر سے نکلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |