جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا
جلوہ دکھا کے گزرا وہ نور دیدگاں کا
تاریک کر گیا گھر حسرت کشیدگاں کا
غم یار کا نہ بھولے سو باغ اگر دکھا دیں
کب دل چمن میں وا ہو ماتم رسیدگاں کا
رنگ حنا پہ تہمت اس لالہ رو نے باندھی
ہاتھوں میں مل کے آیا خوں دل طپیدگاں کا
اہل قبور اوپر وہ شوخ کل جو گزرا
بیتاب ہو گیا دل خاک آرمیدگاں کا
یوں میرؔ سے سنا ہے وہ مست جام بیدارؔ
تہ کر گیا مصلٰی عزلت گزیدگاں کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |