جنت الحمقاء

جنت الحمقاء
by محمد حسین آزاد
319401جنت الحمقاءمحمد حسین آزاد

تمہید

مضمون مفصلہ ذیل ایک مرقع خاص کی تصویر کا خاکہ ہے، جس کی صورت اصلی یہ ہے کہ ہم اور ابنائے جنس ہمارے کچھ اپنی غلط فہمی سے اور کچھ کوتاہ اندیشی سے اعمال قبیحہ یا حرکات ناپسندیدہ میں مبتلا ہیں اور باوجود کہ اس کے حال و مآل کی قباحتوں سے آگاہ ہیں بلکہ اور ہم صورتوں کو ان کے خمیازے بھرتے دیکھتے ہیں پھر بھی کنارہ کش نہیں ہوتے۔ تعجب یہ ہے کہ جب اپنی جگہ بیٹھتے ہیں تو اس ارتکاب کو داخل حسن سمجھ کر اس میں افراط اور زیادتی کرنی سرمایہ فخر سمجھتے ہیں۔ ایک شراب خوار آدمی یاروں میں بیٹھ کر فخریہ بیان کرتا ہے کہ میں کئی کئی بوتلیں برابر اڑا جاتا ہوں اور حواس میں بالکل فرق نہیں آتا۔ دوسرا اس سے بڑھ کر اچھلتا ہے کہ میں پانی تک نہیں ملاتا، مگر آواز میں اصلاً تغیر نہیں ہوتا۔ اسی طرح ایک عیاش تماش بین اپنی روسیاہیوں کو کہتا ہے اور نہیں شرماتا، دوسرا اس میں اپنی شدتیں اور افراطیں بیان کرتا ہے اور خوشی سے رنگ رخ چمکاتا ہے۔ ایک دغا باز منشی یا دیوان غبن کرکے آقا کے گھر کو برباد اور اپنا گھر آباد کرتا ہے اور جو جو دغل فصل حساب میں کئے، انہیں مسائل افلاطون کی طرح فخریہ سمجھتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جیسا کرتے ہیں ویسا بھرتے ہیں مگر خدا جانے وہ کیا شئے ہے جس نے ایسا پردہ غفلت آنکھوں پر ڈال رکھا ہے کہ نہ وہ برائیاں معلوم ہوتی ہیں نہ ان سے باز آتے ہیں۔ یہی کوتاہ اندیشی کبھی ایک غلط فہمی کے لباس میں ظہور پاتی ہے یعنی اکثر اشخاص خاص خاص امور میں اپنے کمال پر مفتخر اور نازاں ہوتے ہیں۔ ہرچند امور مذکور بجائے خود قابل فخر و ناز کے ہیں مگر بشرطیکہ ان میں کمال نصیب ہو۔ فی الحقیقت اسے غلط فہمی کہنا چاہئے جوکہ نتیجہ حماقت اور ایک قسم کی کوتاہ اندیشی کا ہے۔ چنانچہ یہ لوگ بھی ابتدا میں نا واقفیت عوام کے سبب سے رونق بازار پاتے ہیں، مگر چند درجے طے کرکے گر پڑتے ہیں اور سخت ندامت اٹھاتے ہیں۔ افسوس کہ زمانہ اس قسم کے گناہوں سے خالی نہیں بلکہ روز بروز حال ابتر نظر آ رہا ہے۔ اس لئے یہ مضمون ابنائے جنس کی عبرت کے لئے ایک استعارہ اور کنایہ کے رنگ میں لکھا جاتا ہے۔ ہرچند یہ رنگ صورت مضمون کے منہ پر ایک باریک نقاب ہے لیکن اگر اہل نظر چند ساعت کے لیے نظر غور کو تکلیف دیں گے تویہ استعارے اور کنایے صراحت اور وضاحت کے پہلو میں رکھے ہوئے پائیں گے۔ دل تیرا آپ پردہ ہے دیدار کے لئے ورنہ کوئی نقاب نہیں یار کے لئے دنیا میں اکثر قباحتیں اور حماقتیں ایسی ہیں کہ ہم سب ان میں آلودہ ہیں، مگر معلوم نہیں ہوتیں۔ درحقیقت وہ ہماری رسائی فہم سے بہت اونچے طاق پر رکھی ہیں اور کچھ ایسے ڈھب سے سجائی ہوئی ہیں کہ ہربدی عین خوبی نظر آتی ہے۔ لطف یہ ہے کہ وہ آلودگی ہمیں کچھ بری بھی نہیں معلوم ہوتی بلکہ بجائے اس کے رفع کرنے یا چھپانے کے خود دکھاتے ہیں اور آرزوئیں کرتے ہیں کہ اپنی قباحتوں میں ترقیاں کریں اورانہیں میں ہماری قدر دانیاں ہوں۔ چنانچہ سیکڑوں واہیات، ہزاروں لغو خیالات، نئے مسخراپن، ظرافتوں کے چمن ہیں کہ وہی ہماری تفریح طبع اور خوش دلی کا سرمایہ ہو رہے ہیں اور یہ رنگینیاں ہمیں ایسے ایسے رنگوں میں رنگین کرکے ابنائے جنس کے سامنے جلوہ دیتی ہیں کہ ہم بھی انہیں میں خلعت افتخار لیتے ہیں۔ اس فخر بے ہودہ اور خیال بے بنیاد کی خوشی میں خدا جانے کیا لطف دیکھا ہے کہ سیانے دنیاداروں نے اس کی دل فریبیوں کا اشارہ کرنے کے لئے ایک لطیف اصطلاح چھانٹی ہے یعنی جنت الحمقاء۔ لفظ آخر میں شاید لوگوں کو کچھ غلطی کا خیال ہو اور جو کچھ میں نے کہا، انہیں اس کی نسبت کچھ اور وضع دکھائی دیتی ہو لیکن مجھے اب اس کا امتحان کرنا بے جا ہے کیونکہ میں جو اس وقت آنکھیں مل رہا ہوں تو یہی خواب دیکھ رہا تھا۔ ابھی سوتے سوتے ایسا معلوم ہوا گویا کسی نے مجھے ایک پہاڑ پر پھینک دیا ہے۔ مگر عجیب پہاڑ ہے کہ سبزہ سے لہلہاتا، پھولوں سے چہچہاتا، جابجا پانی لہراتا ہے۔ چڑھائی اس کی ہمت بلندکانمونہ ہے۔ مگر باوجود اس کے اعتدال پر ہے کہ دم نہیں چڑھنے دیتی بلکہ ساعت بہ ساعت سینہ کو قوت حاصل ہوتی ہے۔ میں ادھر ادھر پھرنے لگا۔ اتنے میں ایک پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا تو میدان فراخ پایا اور دور سے نظر آیا کہ ایک جگہ آب رواں میں پاؤں لٹکائے کوئی شہزادی بیٹھی ہے کہ زیور اور لباس سے طاؤس مرصع کا عالم ہے۔ مگر آنکھ سے بھینگی ہے اور اس بھینگی آنکھ پر ایک رنگین عینک بھی لگائے ہے کہ اسی سبب سے اسے کوئی شئے حالت اصلی پر نظر نہیں آتی۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ ملکہ غلط فہمی یہی ہے اور کل اہل عالم کی غلط فہمی گویا اسی کی نگاہ پر منحصر ہے۔ برابر اس کے ایک اور عجوبہ روزگار نظر آئی کہ اس کے بے انتہا سر ہیں اور دھڑ ایک۔ جس بات کی پسند ناپسند پر سر ہلاتی ہے، تمام جہان کے سراسی طرح ہل جاتے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ پسند عام اسی کا نام ہے۔ ان میں سے ایک غلط نمائی کرتی ہے اور دوسری دل ربائی کرکے جس شئے پر چاہتی ہے، سب کو شیفتہ و فریفتہ کر لیتی ہے۔ یہ دونوں رات دن جادوگری میں مصروف ہیں اور تسخیر خلائق کے عمل میں شہرہ آفاق ہو گئی ہیں۔ لوگوں کایہ حال دیکھا کہ چاروں طرف سے انبوہ د رانبوہ امڈ ے چلے آتے ہیں اور اگرچہ آمد کے رستے بھی دور ہیں مگر ہر رستہ انہی دونوں کی طرف جاتا ہے۔ آنے والوں میں بعض آدمی جو خود آرائی کے رنگ سے رخ چمکائے ہوئے اور زیبائی کے روغن سے سر چکنائے ہوئے تھے، انہیں کچھ ہدایت یا اشارت کی حاجت نہ تھی، خود بخود غلط فہمی کی طرف چلے جاتے تھے اور وہ عالم فریب ایک ایک شخص کو اس کی طبیعت کے موافق اسی طرح لبھاتی تھی کہ لٹو ہو جاتا تھا۔ بعد ازاں کچھ ایسی کل مروڑتی تھی کہ خودپسندِ عام کے پھندے میں جاکر گلا رکھ دیتا تھا۔ غرض کہ اسی طرح پھر تے پھرتے ہم ایک میدان جانفرا میں جا نکلے۔ وہاں دیکھیں تو پسندِ عام چہل قدمی کر رہی ہے اور بہت سے لوگ جو ہم سے بھی پہلے وہاں پہنچے ہوئے تھے انہیں پھسلا رہی ہے۔ آواز اس کی ایسی رسیلی تھی کہ دل مست ہوئے جاتے تھے۔ جب بات کرتی تھی تو منہ سے پھول جھڑتے تھے۔ بولتی تھی تو سانس کے ساتھ خوشبو کی لپٹیں آتی تھیں۔ لطف یہ تھا جس شخص سے بات کرتی تھی، جدا زبان اور جداطرز بیان تھا اور جو سنتا تھا، یہی خیال کر رہا تھا کہ وہ جوہر بے مثل جو خاص میری ذات باکمال میں قابل قدر ہے، اسی کی بابت یہ گفتگو ہو رہی ہے۔ بس گویا اس جنت بے زوال کا فرمان ملا جس کے انعام کا استحقاق کلی مجھ میں موجود ہے۔ غرض اسی حال میں ہم سب کھچے کھچے اس کے پیچھے چلے جاتے تھے اور مسافت راہ میں یا تو اپنی خوبیوں کی خود آپس میں تعریف کرتے جاتے تھے یا اپنی خیالی خوبیوں پر آپ ہی اتراتے تھے، یا جنہیں اپنی وضع کا نہ پاتے ان کی ہجو کرتے جاتے تھے۔ کچھ اپنے اپنے مدارج کمال پر آپس میں لڑتے جھگڑتے چلے جاتے تھے۔ غرض اسی عالم میں چلتے چلتے ایک باغ نظر آیا جو کہ اسم بامسمی اندھیریا باغ تھا۔ اس کے دروازے پر دیکھیں تو غلط فہمی بیٹھی ہے۔ مگرجس مکان میں وہ بیٹھی تھی اسے عمدا ًایسی حکمت عملی سے بنایا تھا کہ صورت اس کی دھندلی سی نظر آتی تھی۔ اس نے کچھ سفیدسا لباس پہنا ہوا تھا کہ جس سے دیکھنے والوں کو ملکہ صداقت کا دھوکہ ہوتا تھا اور چونکہ شہزادی صداقت پری ایک مشعل بھی ساتھ رکھا کرتی ہے، جس سے اپنے عاشقوں کو حسن خدا آفریں کی خوبیوں کا جلوہ دکھاتی تھی، اس نے اس کے جواب میں داہنے ہاتھ پر شیشہ جادو اور بائیں ہاتھ پر سحرسامری کی چھڑی رکھی تھی۔ انہی ٹونے ٹوٹکوں سے دلوں کو لبھاتی تھی اور دھوکے دغا سے سب کو پر چاتی تھی۔ چنانچہ کبھی کبھی بڑی تمکنت سے ہاتھ بڑھا کر اس چھڑی کو اٹھاتی اور منہ ہی منہ میں کچھ پڑھتی تھی۔ اس کے علاوہ نرگس جادو بہت ناز وانداز کے پھول اور نمود و نمائش کی کلیاں گودیں بھرے کھڑی تھی، انہیں اہل اشتیاق کے سامنے بکھیرتی جاتی تھی۔

دفعتاً عصا کا اشارہ آسمان کی طرف ہوا اور ساتھ ہی اس کے سب کی نگاہیں اوپر اٹھ گئیں۔ ایک نیا قطعہ آسمان کا ایسا صاف و مصفا دکھائی دیا جیسے صبح بہار میں فلک فیروزی کا رنگ بکھرا ہوا ہو۔ اسی فضائے دلکشا میں ملکہ خام خیالی کا محل نظر آیاکہ آسمان سے باتیں کرتا تھا مگر نہ معلوم ہوتا تھا کہ کون سی بنیاد ہے جس پر یہ قائم ہے۔ فقط پیچ درپیچ بادلوں کاایک زنجیرہ تھا کہ جادو کے زور سے ادھر کھڑا تھا، اس کی چڑھائی کا راستہ جو ہمارے زیر قدم تھا، قوس قزح کی طرح خوش رنگ و خوشنما تھا۔ نسیم جاں بخش جو ادھر ادھر سبزہ پر لوٹتی تھی، ہر جھونکے میں عقل وحواس پر جادو کی پڑیاں مارتی تھی۔ تمام دیواریں طلسمات کے رنگ سے دم میں سنہری تھیں اور دم میں روپہلی۔ سب سے نیچے کے درجے کے ستون اگرچہ باغ ارم والی تراش پر اتارے تھے، مگر برف کے تراشے تھے۔ چھت کا گنبد نہایت عالیشان تھا۔ لیکن برج کی جگہ ایک شیشہ کا بلبلہ دھرا تھا اور اس کے کلس پر طائر خیال کا ہما پر پھیلائے تھرتھرا رہا تھا۔ مسافروں نے وہاں پہنچ کر نہ کوئی دربان پایا نہ کسی کا انتظار کیا۔ جو آیا اپنے جوہر قابلیت کو پروانہ اجازت سمجھے ہوئے بے دھڑک اندر داخل ہو گیا۔ دربار کے کمرے میں پہنچے تو دیکھتے ہیں کہ بہت سی نمودِ بےبود صورتیں ہیں کہ ہم ہی میں ملی جلی اہتمام کرتی پھرتی ہیں۔ اور اس انبوہ بے تمیزی میں اپنے اپنے خیالات کے بموجب ایک ایک درجے قائم کرکے صفیں ترتیب دیتی پھرتی ہیں۔ مدارج عزت بھی وہاں روشن ہوتے ہیں، مگر ساعت بہ ساعت دھوپ کی طرح ڈھلتے جاتے ہیں اور لوگ تھے کہ بتاشے کی طرح بیٹھے جاتے تھے۔ استحقاق پوچھو تو دادا پر دادا کے وقت کا ایک پھٹا پرانا سا چغہ تھا، اس کے سوا کچھ نہیں۔ ایک طرف لاف گزاف تھی جس نے خود اپنی ذات خوش صفات کا ایک قصیدہ بنا رکھا تھا۔ آپ ہی اس اعمال نامے کو پڑھتی تھی اور خوش ہوتی تھی۔ اسے اپنے سوا دوسرا ذکر نہ تھا۔ اکڑ تکڑ تھی کہ پنجوں کے بل چلتی تھی اور اینٹھتی پھرتی تھی۔ خودپرستی ایک طرف آئینہ کے سامنے کھڑی تھی۔ آپ ہی اپنے تئیں دیکھتی تھی اور پھولی نہ سماتی تھی۔ کمرے کے صدر میں تخت شاہانہ اور آگے ایک شامیانہ اس شان و شوکت سے سجا ہوا تھا کہ جس قدر سجاوٹ کے گمان میں گنجائش اور حوصلہ آرائش میں وسعت تھی، سب اس میں خرچ ہو گئی۔ تخت پر ہالہ ماہ کا چتر، اس کے نیچے ملکہ خام خیالی مہتاب آتش بازی کے دو پر لگائے پڑی بنی بیٹھی تھی۔ جو اس کے خیال پرست تھے وہ اسے پری حسن آفریں کہتے تھے اور زہرہ ثانی اعتقادکرتے تھے۔ ایک نوجوان تخت کے پہلو میں کھڑا تھا اور ہر ایک کو سامنے لاکر سجدے کرواتا تھا۔ معلوم ہوا کہ وہ اس کا رشید بیٹا ہے اور شہزادہ خودپرست اس کا نام ہے۔ اس کی خودپسندی اور خودبینی کایہ عالم تھا کہ اپنی نظر اپنے ہی بیچ میں غرق ہوئی جاتی تھی۔ ادھر ادھر کی شئے اسے اصلاً نظر نہ آتی تھی۔ اس پر بھی لوگوں کایہ حال تھا کہ ملکہ سے زیادہ اس کی طرف جھکتے تھے۔ ایک گلاب پاش اس کے ہاتھ میں تھا، بقدر حیثیت ہر شخص کے سر پر چھڑک دیتا تھا کہ خودپسندی اور بلندنظری کے خمار سے دماغ ان کے آسمان پر پہنچ جاتے تھے۔ تماشہ یہ تھا کہ شہزادہ جو جو ہتھیار فتوحات کے لئے کام میں لاتا تھا، وہ انہیں لوگوں سے لئے تھے جن کو شکار کرتا تھا۔ چنانچہ جس بہادر کو اپنے تیر کا نشانہ کرتا تھا اسی کے سر کی کلغی نوچ کر اپنے تیر کی پرگیری لگاتا تھا۔ جس نیزے سے اہل علم پروار کرتا تھا وہ انہیں کے لکھنے کا قلم تھا۔ جس تلوار سے دولت مندوں کو دو پارہ کرتا تھا اس کے قبضہ پر انہیں کے خزانوں سے لے کر سونا چڑھاتا تھا۔ ناظمان ملک کے لئے دام تزویر بناتا تھا کہ پھندے اس کے انہیں کی بندش تدبیر سے اڑائے ہوئے تھے۔ صاحب جمالوں کے رخساروں سے گرمی حسن لیتا تھا اور عاشقوں کے ساتھ اسی میں انہیں بھی گرماتا تھا۔ یہاں تک کہ حسن کے پھول خود بخود کمہلا کر رہ جاتے تھے۔ فصیحوں کی زبانوں سے بجلی کی تڑپ نکالتا تھا کہ اپنی آگ میں آپ ہی جل کر خاک ہو جاتے تھے۔ تخت کے نیچے تین چڑیلیں پریوں کا بھیس بھرے حاضرتھیں۔ اول تو خوشامد تھی کہ بڑی خوش ادائی سے رنگ آمیزی کا خول سنبھالے کھڑی تھی۔ دوسری ظاہر داری آئینہ سامنے رکھے اپنے فن کی مشق کر رہی تھی۔ بعداس کے خوش رواجی تھی جسے اب تک ہم بھیڑ چال کہتے تھے۔ مگر اسے دربار سے رعنائی اور خوشنمائی کا خطاب ملا تھا۔ اس کایہ عالم تھا کہ ہرنگاہ میں گرگٹ کی طرح نیار نگ بدلتی تھی اور ہزاروں شکاروں کو ایک جال میں گھسیٹتی تھی۔ غرض کہ شہزادہ خودپرست، شمشیر کے زور اور تدبیر کی لاگ سے برابر فتوحات حاصل کئے جاتا ہے اور یہ تینوں دولت خواہ اس کے استحکام اور محافظت میں برابر مصروف تھے۔ ہرکام کا مہتمم اپنا حق صدق دل سے ادا کر رہا تھا۔ چنانچہ خوشامد جس شئے پر ضرورت دیکھتی تھی، نئے سے نیا رنگ چڑھا دیتی تھی کہ ہردل کی آنکھ کو خوش آتا تھا۔ ظاہرداری ایسے ایسے ڈھنگ سے نمائش دیتی تھی کہ کیسی ہی بدنما شئے ہو خوشنما ہو جاتی تھی۔ خوش رواجی کا یہ عالم تھا کہ موٹے موٹے عیب ہوتے انہیں ڈھانک دیتی بلکہ ان پر ایسی خوبیاں چپکاتی کہ جنہیں اس سے کچھ لگاؤ بھی نہ ہوتا۔ میں ان حالات کو نگاہ غور سے دیکھ رہا تھا جوایک آواز دردناک کان میں آئی۔ گویا کوئی کہتا ہے، ’’ہائے آدم زاد، ہائے تیری غفلت! خودرائی سے ہدایت پاتا ہے، غلط فہمی کے دام میں آ جاتا ہے، خودپسندی کی اشتعالک سے چمک اٹھتا ہے، خام خیالی کے قدموں پرچل کر تعلیم پاتا ہے، یہاں تک کہ مفلسی اور خواری کی زنجیروں میں گرفتار ہو جاتا ہے۔‘‘ یہ کلمے ابھی زبان بہ زبان پھیلنے نہ پائے تھے جو دفعتاً ایسی ہلچل پڑی کہ تمام انبوہ تہہ و بالا ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد ایک طرف سے رستہ کھلتا معلوم ہوا۔ دیکھوں تو ایک بڈھا نورانی صورت، معقول وضع ہے جس کے چہرے پر سنجیدگی اور متانت برستی تھی۔ اسے گرفتار کئے لاتے ہیں اور جو کلام عبرت انگیز نصیحتاً اس نے زبان سے نکالا تھا اس کی سزا دینے کے لئے جاتے ہیں کیونکہ وہ ان کے آئین حکومت میں سراسر باعث خرابی تھا۔ یہ بھی معلوم ہواکہ اس نے جو کچھ کہا تھا فقط اپنے بری الذمہ ہونے کو کہا تھا۔ اس کا نام ناصح دانش تھا۔ مگر لوگ ایسے بپھرے ہوئے تھے کہ اس بے چارے کی بات سننی بھی گوارہ نہ تھی۔ بلکہ اسے ایسی خواری اور زاری میں دیکھ کر خام خیالی تو مسکراتی تھی، خودپسندی تیوری چڑھاتی تھی، خوشامد اسے ذرا راست باز سمجھتی تھی، اس نے اتنا لحاظ کیا کہ برقع اوڑھ کر برابر سے نکل گئی۔ ظاہر داری نے اپنا پنکھا اٹھا کر اس کی اوٹ میں منہ چڑا دیا۔ کسی نے اس بے چارے کا نام حاسد رکھا، کسی نے عیب جو کا خطاب دیا۔ رواج نے دھوم مچادی کہ بداطوار، سلطنت کے برخلاف بغاوت پھیلانی چاہتاہے۔ غرض اس پیر دیرینہ سال نے ہر طرف سے ذلت ہی ذلت اٹھائی اور اس جرم میں کہ ایسے ایسے لائق و فائق معززوں کے حق میں گستاخی کی، چاروں طرف سے دھکے کھائے بلکہ تحقیق خبر لگی کہ اگرچہ اس وقت نکالا گیا ہے مگر حکم ہے کہ آئندہ اگر کہیں صورت دکھائی تو اس کے حق میں بہت برا ہوگا۔ بڈھے بے چارے نے جو کچھ کہا اس میں سے بہت کچھ تو میں آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔ باقی باتوں کے لئے سوچ رہا تھا کہ دیکھئے کس رنگ سے پوری ہوں۔ اتنے میں باہر کی طرف سے ایک غل اٹھا اور ظلم وستم اور بے انصافیاں چڑیوں کے بَرَن میں اسی طرح اڑنے لگیں، گویا آندھی آئی۔ انہوں نے اس کثرت سے ہجوم کیا کہ دروازہ تیرہ و تار ہو گیا۔ بیوقوفی اور بے اعتباری نمودار ہوئیں۔ تکلیف، شرم، رسوائی، حقارت، مفلسی سب آگے پیچھے حاضر ہوئیں۔ ان کے آتے ہی ادھرتو خام خیالی جو سونے کی چڑیا بنی بیٹھی تھی، ادھر شہزادہ خود پرست ان کے ساتھ ساری پریاں دم کے دم میں ہوا ہو گئیں۔ ادھر تمام معتقد اور ہوا خواہ ان کے بھاگ بھاگ کر کونے گوشے اور سوراخوں میں گھس گئے۔ مگرایک شخص میرے پاس کھڑا تھا۔ اسے کہیں سے دوربین ہاتھ آ گئی۔ چنانچہ اس نے دیکھا اور دفعتا ً بولا کہ وہ گرفتاری کا حکم ہوا، وہ سو آدمیوں کا غول جیل خانے کو چلا، دو ہزار آدمی تہہ خانہ میں قید ہونے کو چلے، وہ سب اندھیری کو ٹھریوں میں بند ہو گئے۔ مراد اس قید سے زندگی کے عذاب، دنیا کے دھندے، مکر و فریب کے جھگڑے تھے۔ جن مکانوں میں وہ لوگ ڈالے گئے، ان کی خرابی دیکھنی چاہو تو دلہائے پریشاں کی بدحالی کو دیکھ لو۔ وہ لوگ اگرچہ یہاں ہائے وائے بہت سی کرتے تھے، مگر نکلنے کے رستے کی طرف کبھی خیال نہ کرتے تھے۔ چنانچہ اس شخص نے ناک چڑھا کر کہا کہ یہ کم بخت اپنی حماقت اور شامت اعمال سے آپ یہاں پڑے ہیں۔ نہیں تو نہ یہ مکان ان کی شان کے قابل ہیں نہ یہ اخراجات ان کے سامان کے لئے کافی ہیں۔ خیر ہم نے ایسے تماشے بہت دیکھے ہیں۔ اب یہ ہلچل ہو چکے گی تو پھر وہی بہار کا سماں ہوگا۔ جب میں نے یہ سنا تو اس کا رخانہ کی ناپائداری نے میرا دل بے زار کر دیا۔ میرے رفیق نے جو خبر دی تھی، میں نے اس کا شکریہ ادا کیا، مگر جب دیکھا کہ بغیر گرفتار ہوئے یہاں سے نہ سر کےگا تو میں چپکے سے دروازہ کی طرف کھسکا اور چند اور شخصوں میں جا ملا کہ جو صداقت اور واقعیت کو مانتے تو نہ تھے، مگران شامت اعمال کے گرفتاروں کو دیکھ کر ڈر گئے تھے۔ جب ہم دروازے کی دہلیز پر پہنچے تو دل پر صدمہ عظیم گزرا۔ یعنی وہاں آکرغلط نمائی کا پردہ آنکھوں سے اٹھ گیا۔ تب معلوم ہوا کہ اس محل کی بنیاد بالکل نہیں، معلق ہوا میں کھڑا ہوا ہے۔ اول تو ہم نے سوائے اس کے چارہ نہ دیکھا کہ موت کا کنواں ہے، آنکھیں بند کرو اور کود پڑو۔ مگر اس پہلی ہوس بے حاصل پر دل کو ہزار لعنت ملامت کی جس نے اس عذاب میں گرفتار کیا۔ اب مقام تعجب یہ ہے کہ جس قدر یہ سب اپنے اپنے دل میں غور کرتے جاتے تھے، اتنا ہی وہ محل ہمیں نیچے اتارتا جاتا تھا۔ یہاں تک کہ جو حالت ہم اپنے مناسب حال دیکھتے تھے اسی انداز پر آکر ٹھہر گیا۔ رفتہ رفتہ تھوڑی دیر میں جہاں ہم کھڑے تھے وہ مقام زمین سے لگ گیا۔ ہم سب نے نکل کر اپنا اپنا راستہ لیا اور محل آنکھوں سے غائب ہو گیا۔ اب یہ نہیں کہہ سکتے کہ جو لوگ اس میں رہے ان پر کیا گزری اور انہیں ہمارے اتر جانے کی خبر بھی ہوئی یا نہیں۔ میں تو جانتا ہوں کہ نہیں ہوئی۔ خیر جو ہوا، سوہوا۔ اس سوچ میں دفعتاً میری آنکھ کھل گئی۔ خواب تو خواب و خیال ہو گیا، مگرنصیحت ہوئی کہ اب خام خیالی کے اشاروں پر کبھی نہ چلوں گا۔ اس راہ خطرناک میں پھر قدم نہ دھروں گا۔ حاشیہ(۱) بات تو سچ ہے، خام خیالی ہی سے خودپرستی پیدا ہوتی ہے۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.