319588جنم قیدیمرزا عظیم بیگ چغتائی

اے ری سکھی سیاں ارہر میں جھانکیں

شام کا سہانا وقت تھا۔ خوبصورت گدھے ریشمی کھیتوں میں کلیلیں کر رہے تھے۔ ان کی سریلی آوازوں کا پر کیف نغمہ ہوا میں ایک ارتعاش اور ترنم پیدا کر رہا تھا۔ گوبر اور سڑے ہوئے پتوں کی بھینی بھینی بدبو سے ہوا میں گرمی سی تھی۔ کیا ہی خوبصورت منظر تھا۔ ادھر کوڑے کے ڈھیر لگے ہیں۔ ادھر گوبر کے اونچے اونچے ٹیلے پہاڑوں کا منہ چڑا رہے ہیں۔ سامنے کچھ خوبصورت بھینسیں کیچڑ کے ملائم اوور کوٹ پہنے ٹہل رہی ہیں۔ ان کے بچے بھی کیچڑ کی خوبصورت جا کٹیں اور شلواریں پہنے ٹہل رہے ہیں۔ کیا ہی پر فضا اور روح پرور سماں ہے۔

سامنے ارہر کے سرسبز کھیت تھے۔ میری گاڑی کے پہئے کی سی خوبصورت آنکھیں اس مخملی کیچڑ کی طرف متوجہ تھیں جو میں اپنی نازک انگلیوں سے، ہاں نازک انگلیوں سے، یعنی ان انگلیوں سے جن پر چکی کے ملائم دستے کی رگڑ سے گٹے پڑ گئے ہیں وہ انگلیاں جن پر ناخن کا گول تاج ہے، وہ ناخن جن کے کناروں میں گائے کا گوبر ٹھنس کر اس طرح وہیں کا وہیں رہ گیا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اس ناخن کے تاج پر سینگ کی گوٹ لگی ہے، ہاں تو میں اپنی انہیں حسین انگلیوں سے تال میں سےمخملی کیچڑ نکال نکال کر ایک ٹوکری میں رکھ رہی تھی کہ میری نظر ارہر کے کھیت کی طرف کسی سرسراہٹ کی وجہ سے متوجہ ہوئی۔ کچھ شبہ سا ہوا کہ کوئی گائے یا بھینس یا کتا ہے مگر وہاں کچھ بھی نہ تھا۔

میں پھر اپنے دلچسپ کام کی طرف متوجہ ہوگئی۔ ایک دم سے میری کمر پر کوی تین پاؤ وزنی مٹی کا ڈھیلا اس زور سے آکر لگا کہ ٹوٹ کر کھیل کھیل ہوگیا۔ میں نے مڑ کر دیکھا۔ غور سے دیکھا کہ کون ہے؟ موٹی موٹی اٹھارہ انیس گالیاں، اس نامعلوم ڈھیلا پھینکنے والے کو نہایت ہی کھری کھری سنائیں مگر وہاں تو کوئی نہ تھا۔ میں پھر اپنے کام میں مشغول ہوگئی۔

لیکن تھوڑی دیر بعد کنوئیں کے رہٹ چلانے کا موٹا سا ڈنڈا میری اس نازک کمر پر آکر لگا جس کی امداد سے میں ڈیڑھ من کی گٹھری اٹھا لیتی ہوں۔ میں نے جل کر موٹی موٹی گالیاں دیں اور کھڑی ہوئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ وہاں تو کوئی اور ہی ہے! وہ جو مجھے اپنی بھینس اور تمام بیلوں سے زیادہ عزیز ہے، وہ جو اگر آج مجھ سے کہے کہ تو اپنے وہ تمام اپلے لٹادوں جو میں نے سال بھر میں سکھا کر رکھے ہیں، وہ جس کو کہ میرا جی چاہتا ہے کہ ناشتے کے لیے ڈھائی پاؤ مکی کی روٹی پیاز کی دو گٹھیوں کے ساتھ روز کھلاؤں۔ وہ جس کو کہ میرا جی چاہتا ہے کہ بھر بھر کر کلہیاں روز شیرہ پلاؤں۔۔۔ وہاں تو وہ کھڑا ہے جو مجھے بیل سے بھی زیادہ عزیز ہے۔ کھرپے سے بھی زیادہ پیارا ہے۔ ہنسیا سے بھی زیادہ بانکا ہے۔ قصہ مختصر وہاں تو سیاں تھے جو ارہر میں سے جھانک رہے تھے!

بس ان کے دیکھتے ہی میری حالت ہی عجیب ہوگئی۔ میری نازک جبین پر جو بھینس کے ماتھے کی طرح خوبصورت اور سجل ہے، شرم و حیا کی سراون چل گئی۔ میں نے سیاں کے چہرہ کو نظر بھر کر دیکھا۔ وہ خوبصورت چہرہ جو گول کدو کی طرح ہے اور جوانی اور محبت کے روپ سے نئے کھرپے کی طرح چمکتا ہے۔ وہ بیل کی سی بڑی بڑی آنکھیں جیسے معلوم ہو کہ اپلے تھاپنے والی ناند میں آج نیا پانی بھرا ہے۔ اس خوبصورت چہرے پر کھدر کی دوہری چادر کا پگڑ کیا بہار دے رہا تھا! گھڑے کے برابر پگڑ! وہ خوبصورت پگڑ جس کی وجہ سے زمیندار کا جوتا روئی کا گالہ بن کرسیاں کے سر کو ضرب پہنچانے کے بجائے گویا سہلاتا ہے۔ وہ پگڑ جس کی بدولت سیاں جب خان صاحب کے یہاں پٹنے جاتے ہیں تو لگان کا روپیہ جوں کاتوں باوجود مار کھانے کے واپس لے آتے ہیں۔

میں نے کیچڑ اپنے داہنے ہاتھ میں اٹھائی کہ جیسے ماروں گی۔ ایک مسکراہٹ سیاں کے چہرہ پر نمودار ہوئی جو چشم زدن میں پھیل کر دونوں کانوں تک پہنچی۔ انہوں نے اپنی آنکھیں کچھ مرکھنے بیل کی طرح مگر شرارتاً جھپکائیں کہ میں پاربتی کی طرف دیکھ کر چلائی۔۔۔ اے ری سکھی سیاں ارہر میں جھانکیں۔

پاربتی اپلے تھاپ رہی تھی۔ اس نے کھیت کے کنارے سے مڑ کر مجھے دیکھا۔ سیاں میری طرف لپکے۔۔۔ اور اُدھر سے پاربتی نہایت ہی ملائم بغیر بنے ہوئے اپلے کا گولا لے کر دوڑی۔ سیاں کو میں نے کیچڑ کی بارش سے روکا۔ مگر جو شخص اتنا بہادر ہو کہ زمیندار کے جوتوں سے نہ رک سکتا ہو وہ کیچڑ کب شمار میں لاتا۔ انہوں نے دوڑ کر سب سے پہلے میری پیٹھ پر بڑے زور سے گھونسا مارا کہ اس گڑ کی بھیلی کی مٹھاس میرے دل و جگر میں بیٹھ گئی اور پھر میری سیاہ بھینس کے بچے کی سی خوبصورت کلائی کو پکڑ کر اس زور سے مروڑا ہے کہ میں درد کی تکلیف کی وجہ سے چیخ کر بیٹھ گئی۔ وہ درد جس کی لذت جب تک رہی، جب تک بازو درد کرتا رہا۔

اتنے میں پاربتی گوبر کا پورا گولا لیے میری امداد کو پہنچی۔ سیاں ہنس تو رہے ہی تھے۔ بولنے کے لیے جو منہ کھولا ہے تو پاربتی نے گوبر کا پورا گولا سیا ں کے چہرہ پر اس زور سے مارا کہ آدھے گوبر سے تو آنکھیں بند ہو گئیں اور آدھا ان کے حلق کے پار اتر گیا۔ میراہاتھ چھوٹ گیا۔ پاربتی اور میں۔۔۔ ہم دونوں بھاگیں۔۔۔ دور سے ہم دونوں سکھیاں گا رہی تھیں، اے ری سکھی سیاں ارہر میں جھانکیں۔۔۔ اور سیاں تال کے میلے پانی سے کلیاں کر رہے تھے۔

برسورام جھڑاکے سے۔۔۔ برسات کا موسم یعنی دھان بونے کا موسم۔ یہ موسم بھی کس قدر خوشگوار اور پر بہار ہوتا ہے اور بالخصوص دیہات میں۔ وہ دیکھیے۔ کھیتوں میں کام ہو رہا ہے۔ لیڈیز اور جنٹلمین اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے ہیں۔ جنٹلمین گاڑھے کی موٹی موٹی دھوتیوں میں پھولے نہیں سماتے۔ سب کام میں لگے ہوئے ہیں۔ ایسے کہ کام تو کم مگر محنت زیادہ ہو۔ یہ محنتی ہیں۔ کالی کالی سیں رو پہلے کھرپے لیے جنلٹمینوں کے ہم دوش مصروف کار ہیں۔ کارخانہ سا جاری ہے۔ کام ٹھیٹ گاندھی جی والی سودیشی ترکیب پر ہو رہاہے۔ غل و شور بہت۔ محنت چوگنی، کام ادھورا۔ اور بیچ میں بھیانک بابا لوگ۔ جرمنی برہنہ کلب کے ممبر کھڑے مکئی اور باجرے کے ٹوسٹ کھا رہے ہیں اور ہر پانچ منٹ بعد ایک بابا لوگ ضرور پٹ جاتا ہے۔

بادل جھوم جھوم کر آرہا ہے۔ بڑی برق رفتاری سے کام ہو رہا ہے کہ پانی برسنے سے پہلے کھیت تیار ہو۔ ’’اے تو میں آنار گھونس دوں۔۔۔‘‘ اپنے بیل کی دم مروڑ کر ایک جنٹلمین نے کہا اور ہل کی دھار زمین میں تیرتی چلی گئی اور بیل کی دم کی ہڈی ٹوٹنے کے قریب پہنچی۔ بیل نے پھنکار مار کر بدلا جو پینترا تو ’’ارے توئے کسائی کاٹے‘‘ کہہ کر جنٹلمین صاحب مع ہل کے ساز و سامان کے جھٹکا کھا کر ترچھے ہو کر رہ گئے اور بیل ہل کے جوئے کو کھینچ کر آپس میں لگے رساکشی کرنے۔ ہل ٹوٹ گیا۔ سب ہی کے ہاتھ ڈھیلے پڑگئے۔ سیوا چمار، رام دین اہیر وغیرہ سب اپنا اپنا کام چھوڑ کر آگئے۔ بیچ میں ٹوٹا ہوا ہل پڑا ہے جس کی مرمت کی تلاش کے لیے ببول کے درخت کی طرف بار بار دیکھا جا رہا ہے کہ اتنے میں آگئی بارش۔

چشم زدن میں ہوا تیز ہوگئی۔ بوندیں بڑھ گئیں۔ کوئی کہیں چھپا کوئی کہیں۔ جنگل کی ہوا اور اس پر مینہ کا زور شور۔ اہاہاہا۔ بیل اپنےالگ چر رہے ہیں۔ لڑکے غل مچا رہے ہیں۔ سیاں ٹھراپی کر ناچ رہے ہیں بارش میں اور ہم۔۔۔ ہم سکھیاں سیاں کو دیکھتی ہیں اور گا رہی ہیں۔ برسو رام جھڑاکے سے برسو رام۔۔۔ متھرا کے پیڑے کھلادوں گی۔

صبح کا وقت تھا اور ماں اندر بیٹھی تھی۔ میں باہر تھی۔ ہریا نےمجھ سے پھر وہی بدتمیزی کی۔ میں نے پکار کر کہا، ’’او ری ماں دیکھ یہ ہریا نہیں مانے۔ مجھے دق کرے ہے۔‘‘ نکلی گھر سے میری ماں جوش کھاتی اور ایک سانس میں ہزار گالیاں ہریا کو دے ڈالیں۔ ’’بھاگ یہاں سے۔‘‘ ماں بولی، ’’میں تجھے اپنی چھوری نہیں دوں گی، نکل یہاں سے۔ ہزار دفعہ کہہ چکی۔‘‘

مگر ہریا اس وقت ہردیال سنگھ تھا۔ خان صاحب نے ہمیں بیگار میں بلوایا تھا گڈے کی دیوار لیپنے کو۔ زمیندار کی بیگار سرکاری کام ہے۔ ہریا نے ہم دونوں کو ڈانٹا اور اتنے میں سرکاری سپاہی لمبا سا برچھا لیے آ پہنچا۔ در اصل آدھے سے زیادہ چمار بیگار پر جا رہے تھے۔ ہم کیسے انکار کرتے۔ گڈے میں پہنچی تو کیا دیکھتی ہوں کہ سیاں کا منہ اس طرف، مرغا بنے ہوئے ہیں اور اپنی ٹانگوں کے درمیان سے انہوں نے مجھے آتے دیکھا۔ باچھیں کھل کر گز گز بھر پھیل گئیں۔ مجھے بے حد ہنسی آئی اور سیاں بھی ہنسے۔ ہم سب اپنے کام پر لگ گئے۔ سب ہی سکھیاں کام کر رہی تھیں اور ہریا گھومتا پھرتا میرے پاس آیا۔

پھر وہی بدتمیزی۔ زمیندار کی نوکری کا گھمنڈ برا ہوتا ہے۔ میں نے ہریا سے کہا، ’’اب کے جو تونے چھیڑا تو خیر نہیں۔‘‘ مگر بھلا ہریا مانتا ہے۔ میرا ہاتھ پکڑ کر اس نے گالی دی کہ ایک دم سے برابر کی دیوار سے دھماکا ہوا۔ سیاں نےکود کر ہریا کے سر پر ایک گدا دیا کہ ہریا کا صافہ گردن میں اتر آیا۔ میرا ہاتھ چھوٹ گیا۔ شور و غل ہوا۔ سیاں کی چاند پر جوتے پڑے تڑاتڑ اور مرغا بنے۔ دیوار کی مرمت کے لیے مرغا بننے سے چھٹکارا ملا تھا۔ مگر وہ تو دیوار سے کود کر یہ کر گزرے۔

شام کو سب سکھیاں بیگار سے فارغ ہو کر گڈہ سے تال پر ہاتھ دھونے پہنچیں۔ وہاں سے ہم سب آ رہی تھیں کہ نہ معلوم کدھر سے ایک طرف سے سیاں پہنچے۔ کاغد میں لپٹا ایک پاؤ بھر گڑ کا ڈھیلا تھا۔ میرا ہاتھ پکڑ کر پڑیا دی اور تیزی سے چلے گئے۔ ہم سب سکھیاں ہنس رہی تھیں۔ گڑ کی ڈلیاں منہ میں اور گا رہی تھیں،

تو لے چل جمنا پار۔ تجھے متھرا کے پیڑے کھلا دوں گی،


میری سوت کا رجوا رنڈوا رے

سیا ں کو اپنی پہلی بیوی روپلی سے بڑی محبت تھی۔ قریب قریب روز اسے مارتے تھے۔ وہ غصہ میں چوڑیاں توڑ ڈالتی اور اپنی مار کا بدلا ساس سے لیتی۔ ادھرسیاں اسے ٹھونک بجا کر گئے نہیں کہ لی اس نے سیاں کی ماں کی خبر۔ ساس بہو میں دن رات لڑائی ہوتی اور سیاں ہر قصے کو روپلی کی مار پر ختم کرتے۔ ساس روزانہ بہو کو پٹواتی۔ کہتی نکل جا میرے گھر سے۔ مگر روپلی کا چار دن کو میکے جانا قسم تھا۔ جاتی بھی تو دن کے دن بھاگ آتی۔ سیاں کے گھر رہتی، مار کھاتی اور روتی۔ خوب خوب پٹتی مگر سیاں کے قابو میں نہ آتی۔ گالیاں دیتی، مار کھاتی، روتی، پیٹتی اور غل مچاتی مگر شام کو جب سکھیاں مل کے ڈھولک بجاتیں تو سب سے لڑتی کہ پہلے میرے سیاں کا گیت گاؤ۔ غرض مار بھی کھاتی اور گیت بھی انہی کے گاتی۔ جب دیکھو رات کو ڈھولک پٹ رہی ہے،

’’مچیا پہ بیٹھن میکا نیک ناہیں لاگیت موڑ پہ میکا بٹھاؤ مورے سیاں!‘‘

ایک روز کا ذکر ہے کہ سیاں نے روپلی کو خوب ٹھونکا اور کہا کہ تجھے مار ڈالوں گا۔ روپلی نےکہا میں ساس کو مار ڈالوں گی۔ اس پر جب اور پٹی تو ساس کے گلے میں چمٹ گئی، پھر اور بھی زیادہ پٹی۔ اس کے دوسرے دن کا ذکر ہے کہ روپلی کنوئیں کے پاس کام کر رہی تھی۔ اتفاقاً کنوئیں میں گر گئی۔ سیاں کے ہاتھ میں پھاوڑا تھا۔ وہ بھی ’’ہائے میری رانی‘‘ کہہ کر مع پگڑ اور پھاؤڑا کے کنوئیں میں کود پڑے۔ نتیجہ برا نکلا۔ لوگ جمع ہوگئے۔ دونوں کنوئیں میں سے نکالے گئے۔ روپلی مر چکی تھی۔ ہریا اور چوکیدار اور دوچار اور آدمی سیاں کو پکڑ کر جوتے مارتے مارتے خان صاحب کے پاس گڈے میں لے گئے کہ اس نے اپنی بیوی کو مار ڈالا۔ وہاں سیاں کا یہ حال کہ زخم پہ زخم۔ ایک تو روپلی گئی دوسرے مار۔

خان صاحب نے کہا، ’’اِدھر گھسیٹ لاؤ بدمعاش کو۔‘‘ لوگوں نے سیاں کو گھسیٹا مگر سیاں اس طرح ’’ہائے دادا رے میری رانی۔‘‘ کہہ کر بھوں بھوں روئے ہیں کہ سب نے تصدیق کردی کہ مرگ اتفاقیہ تھی۔ خان صاحب نے کہا، ’’اس بدمعاش کو چھوڑ دو۔ بیچارہ بیوی کے غم میں مرا جا رہا ہے۔‘‘ سیاں کی ماں بھی ’’ہائے میری بہورانی‘‘ کہہ کہہ کر رات بھر روتی پیٹتی رہیں۔ اور اب تک گاؤں میں دیکھ لو اپنی مرحومہ کی سعادت مندی اور نیک بختی کا جب ذکر کرتی ہیں تو ایک ٹھنڈی سانس کے ساتھ آنکھیں تر ہو جاتی ہیں۔

جب سیاں مجھے بیاہنےآئے تو اول تو سکھیوں نے ان کو خوب مارا، پھر ہم سب نے مل کر خوب گیت گائے۔ سیاں ٹھرے کے نشہ میں دھت مار کھا رہے تھے اور ہم سکھیاں گا رہی تھیں،

میری سوت کا رجوا رنڈوا رے گاندھی سنن سنن سنا دے جیسے انگریجی کا تار

میری شادی ہوئے تین چار ہی مہینے ہوئے ہوں گے کہ ہولی آئی۔ ہریا سے ہماری دشمنی تھی۔ وہ بدمعاش تھا اور مجھے برابر چھیڑتا رہتا تھا۔ میں نے سیاں سے کہا تو انہوں نے ہریا کے پیٹ میں ہنسیا گھنگولنے کو کہا۔ میں نےکہا پھانسی ہو جائے گی تو بولے کہ تجھے لے کر پردیس بھاگ جاؤں گا اور پولیس کے ہاتھ نہ آؤں گا۔ مگر میں نے ہمیشہ روک دیا اور ہریا کو سمجھایا۔ ہریا کہتا کہ مجھے قسم ہے میں تو نہ مانوں گا۔ وہ اکثر سیاں کو خان صاحب سے پٹواتا رہا اور بارہا سیاں کو گڈے کے سپاہی پکڑ کر لے گئے۔

ہولی کے دو روز بعد کا ذکر ہے کہ سیاں رنگ اور کیچڑ میں نہائے تاڑی کی ترنگ میں جھوم رہے تھے اور ڈھولک لیے گاندھی جی کے گیت گا رہے تھے کہ ہریا آ پہنچا اور لگا سیاں کو گالیاں دینے کہ گاندھی جی کے گیت مت گاؤ۔ سیاں بولے کہ ہم اس وقت خود راجہ ہیں اور ڈھول کوڈنڈے سے پیٹتے پیٹتے ہریا کی خبر لی۔ اس کے پاس بھی لٹھ تھا اور دونوں میں خوب لڑائی ہوئی اور دونوں کے سخت چوٹیں لگیں۔ دونوں کا سر پھوٹ گیا اور خوب خون میں ہولی کھیلی۔ دوسرے آدمیوں نے بیچ بچاؤ کیا۔ ہریا گالی دیتا کراہتا چلا گیا۔ سیاں نے کس کس کر ڈھولک پیٹی اور ناچے اور ہم سب سکھیاں گا رہی تھیں، ’’گاندھی سنن سنن سنا دے جیسے انگریجی کا تار۔‘‘

ہولی کے دو مہینے بعد کا ذکر ہے کہ سیاں نے مجھے ایک دن خوب پیٹا، اتنا پیٹا کہ میں کبھی اتنا نہ پٹی تھی۔ میں نے غصہ میں چوڑیاں اپنی پھوڑ ڈالیں، کھانا اپنا بیل کو کھلا دیا اور روٹھ کر بھوکی پڑ رہی اور خوب روئی۔ دوسرے روز سیاں نے مجھے منا لیا تو میں نے شرط رکھی کہ سنیچر کے بازار مجھے سیر کرانے لے چلو۔ دس میل کے فاصلے پر گاؤں تھا۔ اس میں ہرسنیچر کو بازار لگتا تھا۔ سیاں راضی ہوگئے اور میں بھی خوش ہوگئی۔ مارے خوشی کے مجھے رات بھر نیند نہ آئی۔ صبح اندھیرے اٹھ کر میں نے جلدی جلدی باجرے کی موٹی موٹی روٹیاں ساتھ لینے کو پکائیں۔ مانگ میں سیندور بھر کر ٹیکا لگایا اور آنکھوں میں کاجل بھر کے کپڑے پہنے۔ سیاں کا صافہ رنگ دیا تھا اور ہم دونوں ہنسی خوشی باتیں کرتے چل دیے۔

سیاں نے مجھے بازار خرچ کے لیے دوآنہ دیے تھے۔ دن بھر ہم نے خوب بازار کی سیر کی۔ سیندور اور کاجل کی میں نے ڈبیا لی، چھوٹا سا گول آئینہ لیا۔ دو پیسے کا چمکتا ہوا گلے کا موتیوں کا کنٹھا لیا۔ دو سیاہ رنگ کی پھولدار چوٹیاں لیں۔ در اصل سیاں نے کہہ دیا تھا کہ ’’لیلیٰ تیرا جو جی چاہے خرید لے چاہے سارا بازار۔‘‘ اور واقعہ تھا کہ بازار کی سیر کا مزہ جب ہی ہے جب پیسہ کافی ہو، سیاں پورا چمکتا ہوا روپیہ لے کر چلے تھے اور میں نے بھی دل کھول کر خرچ کیا۔ چلتے چلتے تین پیسے کی لکڑی کی ایک کنگھی پر مچل کر رہ گئی اور سیاں کو دلانا پڑی۔ دن بھر ہنسی خوشی سے گزرا۔ شام ہوئے ہم دونوں ہنسی خوشی گھر کی طرف لوٹے۔

مگر راستہ قریب کا جنگل میں سے تھا۔ تاک میں ہریا مع اپنے دوستوں کے لگا ہوا تھا اور جب سنسان جگہ آئی، ایک دم سے نعرہ مار کر ہریا مع اپنے ساتھیوں کے سیاں پر ٹوٹ پڑا۔ میرے منہ سے ایک دلدوز چیخ نکلی۔ سنبھلتے سنبھلتے ہریا نے سیاں کے سر پر ایک زبردست لاٹھی کا ہاتھ دیا اور تین آدمیوں کی لاٹھیاں جو پڑیں تو سیاں زمین پر گرے۔ مجھے دو آدمیوں نے پکڑ لیا۔ میں نے ان کو کاٹ کھایا اور خوب لڑی۔ مگر کہاں ایک کمزور عورت اور کہاں تین ظالم۔ سیاں کو ٹانگ پکڑ کر ایک اندھے کنوئیں میں ڈال دیا اور مجھے لے چلے جنگل میں گھسیٹ کر۔ میرے منہ میں کپڑا ٹھونسا ہوا تھا۔ مگر تھوڑی ہی دور ہم گئے ہوں کہ بازار سے لوٹنے والوں کا ایک گروہ اسی طرف آیا۔ کوئی چارہ نہ تھا سوا اس کے کہ بدمعاش ہریا اور اس کے ساتھی مجھے چھوڑ کر بھاگیں۔ میری جان چھوٹی۔ میرے منہ کا کپڑا ہٹا اور میں کراہ کر بیٹھ گئی۔ ’’ہائے میرے رام۔‘‘

پھر میں نے حال بتایا۔ سب لوگ کنوئیں پر پہنچے۔ پولیس کو اطلاع ہوئی۔ کنواں اندھا تھا۔ سیاں نکالے گئے۔ میں غم کے مارے دیوانی ہوگئی، مگر سیاں کی سانس چل رہی تھی۔ سب لوگ اٹھا کر گاؤں لائے۔ وہاں رات بھر دوا دارو ہوئی، صبح آنکھ کھلی سیاں کی، پھر بند ہوگئی۔ پولیس نے اسی دن صدر ہسپتال میں پہنچا دیا۔ تین مہینے میں سیاں ٹھیک ہوئے۔ ہریا پر مقدمہ بھی نہ چل سکا۔ اس نے کہا کہ میری دشمنی ہے اور میں گڈے میں حاضر تھا۔ پولیس نے گڈے کے کاغذ دیکھے اور ہریا کو چھوڑ دیا۔

سیاں جس روز اچھے ہو کر گھر آئے اس روز ہم نے خوب ڈھول بجایا۔ سیاں بھی ناچےاور ہم سب سکھیاں بھی خوب ناچیں مگر رات کو سیاں بوتل کی بوتل ٹھرّے پی گئے۔ ناچتے ناچتے بگڑ کھڑے ہوئے۔ ڈھولک پھاڑ ڈالی۔ سکھیوں کو گھسیٹ پھینکا اور مجھے جوتیوں سے جو مارنا شروع کیا ہے تو اپنی ماں کی بھی نہ سنی۔ رات کے ایک بجے تک بیٹھے گالیاں دیتے رہے۔ مگر میں تو باغ باغ تھی۔ کیا ہی خوشی کا دن تھا۔ اس کے بعد ہریا نے دوروز سیاں کو بقایا وصولی کے لیے گڈے میں قید رکھا اور مجھے اور میری بڑھیا ساس کو تنہا پا کر اس نےمجھے آٹھ آٹھ آنسو رلایا۔ تیسرے روز میں اپنا سب زیور مہاجن کے پاس رکھ کر سیاں کو چھڑا لائی۔

مگر سیاں جب گھر پہنچے اور ان کو معلوم ہوا کہ میں نے زیور رہن رکھ کر چھڑایا ہے تو مجھے خوب ہی پیٹا، در اصل ان کا خیال تھا کہ زیادہ سے زیادہ خان صاحب دو ایک روز اور پٹواتے پھر چھوڑ دیتے اور اس کے لیے سیاں کبھی کمزور نہ تھے، زیور مفت میں گیا۔ لہٰذا اس خطا پر میں خوب پٹی۔ یہ مار بھی میری محبت ہی میں تھی، مگر میں کیا کروں۔ مجھ سے نہ دیکھا گیا پٹنا اور ہریا کی چھیڑ چھاڑ۔ سیاں کہہ رہے تھے کہ اب ہریا کی موت آئی ہے۔

اس کے دو مہینے بعد کا ذکر ہے۔ سیاں بیلوں کی جوڑی بیچنے دور ایک گاؤں کے میلے پر جانے والے تھے۔ میں نے کہا میں بھی چلوں گی۔ پنڈت جی سے پوچھا تو وہ بولے دکھن کی سمت عورت لے کر گئے تو بیل نہ بکیں گے اور بکے تو اچھے دام نہ آئیں گے، لہٰذا میں تلملاتی رہ گئی۔ دونوں بیلوں کی میں نے خوب صفائی کی، ان کی دم کے بال برابر کر کے کاٹے اور توے میں تیل ڈال کر دم کے بالوں میں خوب لگایا۔ اسی طرح دونوں بیلوں کے سموں اور سینگوں پر سیاہی اور تیل کی مالش کی۔ نظر کا ٹیکا ماتھے پر لگایا اور گلے کی گھنٹیاں مانجھ کر چمکا دیں اور خوب بہت سی موٹی موٹی روٹیا ں تین دن کے لیے سیاں کے ساتھ کیں۔ بیل بکنے کی صورت میں سیاں نے تحفوں کا ڈھیر لگا دینے کو کہا۔ تڑکے سیاں بیلوں کو لے کر روانہ ہوگئے۔

رات کے کوئی گیارہ یا بارہ بجے ہوں گے کہ ہمارے گھر میں ہریا چپکے سے تین آدمیوں کو لے کر گھس آیا۔ بڑھیا ساس کو چارپائی سے باندھ کر منہ میں کپڑا ٹھونس دیا اور مجھے دو آدمیوں نے دبا لیا اور میرا بھی گلا اور منہ دبا دیا۔ میں بے قابو ہوگئی اور میں تو سمجھی آج میرا خاتمہ ہوا کہ ایک دم سے پرمیشور نے میری سن لی۔ دروازے پر جو آدمی تھا وہ چلا کر بھاگ گیا۔ چشم زدن میں ہریا کے سر پر گنڈاسوں کی بارش ہونے لگی۔ تین گنڈاسوں میں وہ ڈھیر ہوگیا۔ ہوش میں جو آئی تو کیا دیکھتی ہوں کہ سیاں دشمن کے خون میں نہائے کھڑے ہیں۔ میں دوڑ کے چمٹ گئی اور سارا حال سنایا، انہوں نے اپنا حال سنایا۔ راستے ہی میں ایک پڑوس کے زمیندار سے بیلوں کا سودا ہوگیا اور وہ بیل اس کے گاؤں پہنچا کر آ رہے تھے۔

سوال یہ تھا کہ اب لاش کہاں پھینکی جائے۔ ہم دونوں نے لاش اٹھا کر چپکے سے لے جا کر پچھواڑے کھیت میں ڈال دی اور سیاں سے میں نے کہا کہ تم بھاگ جاؤ۔ سیاں بھاگے تو نہیں مگر تیار رہے۔ دروازہ اندر سے بند کر لیا۔ کوئی گھنٹہ بھر بعد ہی جو کھٹکا ہوا تو سیاں کو ہوش آیا۔ میں بھی گھبرائی، بھاگنے کے لیے پیچھے دیکھا تو ہر طرف سے مکان گھیر لیا تھا۔ میں نے سیاں کو اناج کی کوٹھی میں چھپنے کی رائے دی۔ اس کا ڈھکن کھول کر ان کو اندر بند کر دیا اور اٹھ کر دروازہ کھول دیا۔ دو پولیس کے کانسٹیبل تھے اور انہوں نے آتے ہی سیاں کو پوچھا۔ میں نے پوچھا کہ کیوں پوچھتے ہو، کیا ضرورت ہے ہمارے گھر میں آنے کی، تم جاؤ۔ اور جب انہوں نے وجہ بتائی تو میں نے کہا کہ ہریا کو تو میں نے مارا ہے۔ مجھے پکڑ لو۔ میں نے گنڈاسی دکھائی۔

مگر پولیس والے نہ مانے۔ انہوں نے گھر میں دیکھ بھال کر اناج کی کوٹھی دیکھنا چاہی۔ میں نے کہا کہ اس میں میرا اناج بھرا ہے، اسے مت دیکھو۔ وہ نہ مانے اور لگے اس پر چڑھنے، میں نے بگڑ کر کہا تم وہاں نہ جاؤ میں کھولے دیتی ہوں۔ میں کوٹھی کے اوپر چڑھ کر بیٹھ گئی۔ قریب ہی موسل رکھا تھا۔ میں نے ہاتھ میں موسل لیا اور سپاہیوں سے کہا، ’’تم جاؤ یہاں سے ورنہ میں موسل ماروں گی۔‘‘

مگر کہاں میں تنہا اور کہاں سپاہی اور گاؤں والے۔ میں نے بہت کچھ مارا کوٹا۔ موسل چلا دیا۔ مگر آخرش مجھے لوگوں نے گرا لیا۔ میں نے غل مچایا۔ دہائی کھینچی۔ خوب چلائی اور سر پیٹ پیٹ کر کہا کہ ہریا کو میں نے مارا ہے۔ میرے سیاں نے نہیں مارا۔ مگر کوئی نہ مانا۔ سیاں کو پکڑ لیا گیا اور میری کسی نے نہ سنی۔ جب سپاہی سیاں کو پکڑ کر لے جانے لگے تو میں نے چھڑانے کی انتہائی کوشش کی۔ لڑی بھی، جھگڑی بھی، روئی بھی اور غل بھی مچایا۔ ہار کراینٹ پتھر بھی مارے اور ساتھ ساتھ تھانے گئی۔ تھانہ پہنچ کر میرے اور سیاں کے بیان لیے گئے۔ میں نے لکھایا کہ ہریا کو میں نے اپنی عزت و آبرو بچانے کو مارا ہے اور سرکار کی چور میں ہوں۔ اور سیاں نے سچ سچ بیان دیا کہ سرکار کا چور میں ہوں۔ میں نے ہریا کو مارا ہے اور اپنی گھر والی کی عزت بچانے کو مارا ہے۔ کوئی دوسری عینی شہادت نہ تھی۔

مقدمہ چلا۔ عدالت میں بھی میں نے وہی بیان دیے اور سیاں نے بھی وہی بیان دیے۔ طول و طویل بحث کے بعد مجھے چھوڑ دیا گیا اور سیاں کو سزا دی گئی۔ حبس دوام بہ عبور دریائے شور۔ جب سے قید بھگت رہے ہیں۔ افسوس۔

شہر کے غریب ترین مزور پیشہ لوگ جہاں رہتے ہیں، وہاں ایک مزدور بیوہ کے ٹوٹے پھوٹے جھونپڑے میں ایک عورت رہتی ہے۔ اس کے کپڑے چیتھڑے ہو رہے ہیں اور معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کا کوئی دکھ نہیں جو اسے نہ پہنچا ہو۔ انتہا سے زیادہ عسرت اور فاقہ کشی نے قبل از وقت اسے توڑ دیا ہے اور زمانے کے بے رحم ہاتھ اس کو سرعت کے ساتھ بڑھاپے کی طرف لیے جا رہے ہیں۔ یہ جنم قیدی کی بیوی ہے۔

اپنا گاؤں چھوڑ کر عزیز و اقارب کو چھوڑ کر شہر میں چلی گئی ہے۔ شہر میں جہاں سنٹرل جیل میں اس کا شوہر قید بامشقت کی کڑیاں جھیل رہا ہے اور جھیلتا رہے گا۔ اپنی جوانی اس نے سخت محنت اور مشقت کی مزدوری میں صرف کردی۔ معمولی عورت اگر دوپیسہ یومیہ کماتی تو اس نے چار پیسے کمائے۔ دن بھر کی محنت کی کمائی جیل کے سپاہیوں کے ہاتھ پر لے جاکر دھرتی ہے۔ یہ لوگ بے حد ایماندار ہیں۔ صاف کہہ دیتے ہیں کہ روپے سے بارہ آنے ہمارے اور چار آنے کی جو چیز کہو تمہارے قیدی کو جیل میں پہنچا دیں۔ مٹھائی کھٹائی، سگرٹ بیڑی جو چیز اس کے رشتہ دار چاہیں قیدی کو اس نرخ پر مل سکتی ہے۔

سال گزرتے گئے اور گزرتے جا رہے ہیں اور یہ محنتی عورت روکھی روٹی کھا کر زندگی کے دن طے کر رہی ہے اور کرتی رہے گی اور برابر اپنے عزیز از جان سیاں کو حتی الوسع جیل میں جو کچھ بھی آرام پہنچا سکتی ہے پہنچاتی رہی ہے اور پہنچاتی رہے گی، تا وقتیکہ دونوں ایک دوسرے سے مل نہ جائیں یا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جدا نہ ہو جائیں۔

اس میلی اور گندی عورت کو آپ اتوار کے دن دیکھیے۔ یہ وہی عورت ہے جو کل کس لباس میں تھی اور آج دیکھیے کتنا اچھا اور رنگین لباس ہے۔ میلے اور بازار جانے کا لباس۔ وہی مانگ چوٹی۔ ہر تین مہینے بعد ایک اتوار کا دن آتا ہے جب قیدی اپنے رشتہ داروں سے مل سکتا ہے، تب یہ بھی جاتی ہے۔

بیچ میں جیل کے سلاخچے ہیں، اس طرح یہ محبت کی ماری غریب اور اس طرف اس کا سیاں ہاتھ میں ہاتھ دیےایک دوسرے کا ہاتھ پکڑے دونوں بیٹھے ہیں۔ باتیں کم کرتے ہیں دیکھتے زیادہ ہیں۔ اسی طرح بیٹھے رہیں گے، باتیں کیے جائیں گے، لازوال عشق و محبت کی کبھی ختم نہ ہونے والی باتیں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ محبت کے جذبات سے مجبور ہوکر دباتے ہیں اور نظر بھر کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں اور پھر خاموش۔ یہ حالت محویت ہوتی ہے کہ ایک دم سے جیل کا گھنٹہ بجتا ہے۔ سنتری کہتا ہے بس باتیں ختم کرو۔ ایک خواب تھا کہ چونک پڑے۔ اب ایک دوسرے کو دیکھتے ہوئے رخصت۔ عورت وہاں سے نہیں ہلتی جب تک کہ قیدی سامنے رہتا ہے۔ پھرآہستہ آہستہ چلی جاتی ہے۔ مڑ مڑ کر اسی طرف پھر دیکھتی اور برابر دیکھتی رہتی ہے۔ جب تک سڑک کا موڑ نہیں آ جاتا اور وہ جیل آنکھ سے اوجھل ہو جاتی ہے اور پھر تین ماہ کا طویل انتظار ہوتا ہے۔۔۔!

دنیا ہر چہار طرف خوشی کی چہل پہل میں مصروف ہے اور رہے گی مگر معلوم نہیں کہ ہمارے ملک کے قوانین کب تک دو دلوں کے درمیان آہنسی سلاخیں رکھیں گے۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.