جن دنوں ہم اس شب حظ کے سیہ کاروں میں تھے
جن دنوں ہم اس شب حظ کے سیہ کاروں میں تھے
اس ایاغ چشم کے پیوستہ مے خواروں میں تھے
چونک چونک اب کھینچو ہو دامن ہماری خاک سے
وہ بھی سپنا ہو گیا تم گل تھے ہم خاروں میں تھے
خار و خس محرم ہیں پر فن گرچہ ہم رہے جوں حباب
ہم ترے اے بحر حسن آخر ہوا داروں میں تھے
خاک بھی ان کی ہے شکل سرو مثل گرد باد
اس قدر آزاد کے جیتے گرفتاروں میں تھے
خصم جو مقراض گل چیں ہیں ترے اے شمع قد
جوں پتنگے جل گئے ہم جو ترے یاروں میں تھے
اس عزیز خلق کی آنکھوں کے دو بادام پر
بک گئے وہ سب جو یوسف کے خریداروں میں تھے
ایک پتھر بھی نہ آیا سر پہ عزلتؔ اب کی سال
گئے کدھر طفلاں جو دیوانوں کے غم خواروں میں تھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |