جن دنوں ہم کو اس سے تھا اخلاص

جن دنوں ہم کو اس سے تھا اخلاص
by نظیر اکبر آبادی

جن دنوں ہم کو اس سے تھا اخلاص
کھل رہا تھا وہ جا بجا اخلاص

اس کو بھی ہم سے تھی بہت الفت
اور ہمیں اس سے تھا بڑا اخلاص

مل کے جب بیٹھتے تھے آپس میں
تھا دکھاتا عجب مزا اخلاص

ایک دن ہم میں اور نظیرؔ اس میں
ہو کے خفگی جو ہو چکا اخلاص

ہم یہ بولے کدھر گئی الفت
وہ یہ بولا کدھر گیا اخلاص

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse