جوانی آئی مراد پر جب امنگ جاتی رہی بشر کی
جوانی آئی مراد پر جب امنگ جاتی رہی بشر کی
نصیب ہوتے ہی چودھویں شب شکوہ رخصت ہوئی قمر کی
وہ شوخ چتون تھی کس ستم کی کہ جس نے چشمک کہیں نہ کم کی
کسی طرف کو جو برق چمکی تو سمجھے گردش اسے نظر کی
ترا ہی دنیا میں ہے فسانہ ترا ہی شیدائی ہے زمانہ
ترے ہی غم میں ہوئیں روانہ نکل کے روحیں خدائی بھر کی
نہ آسماں ہے نہ وہ زمیں ہے مکاں نہیں وہ جہاں مکیں ہے
پیمبروں کا گزر نہیں ہے رسائی ہے میرے نامہ بر کی
کھنچا جو طول شب جدائی اندھیری مدفن کی یاد آئی
نگاہ و دل پر وہ یاس چھائی امید جاتی رہی سحر کی
جو عشق بازوں کو آزمایا لگا کے چھریاں یہ قہر ڈھایا
یہاں یہاں تک لہو بہایا کہ نوبت آئی کمر کمر کی
گرے جو کچھ سرخ گل زمیں پر کہا یہ بلبل نے خاک اڑا کر
ہوا ہے وعدہ مرا برابر یہ صورتیں ہیں مرے جگر کی
مقام عبرت ہے آہ اے دل خدا ہی کی ہے پناہ اے دل
نہیں ہے کچھ زاد راہ اے دل عدم سے تاکید ہے سفر کی
یہ ہم نے کیسا سفر کیا ہے مسافروں کو رلا دیا ہے
اجل نے آغوش میں لیا ہے خبر بھی ہم کو نہیں سفر کی
وہ جلد یارب انہیں کو تاکے لگا دے دو تیر ان پر آ کے
یہ دونوں رہ جائیں پھڑپھڑا کے میں دیکھوں لاشیں دل و جگر کی
کسی کا معشوق چھوٹتا ہے سحر کا وقت اس کو لوٹتا ہے
کوئی یہ سینے کو کوٹتا ہے نہیں ہے آواز یہ گجر کی
کھچا ہے زرتار شامیانہ گلوں سے آتی ہے بو شہانہ
دکھا کے قدرت کا کارخانہ لحد نے حسرت بھلا دی گھر کی
غشی کا عالم وہ زور پر ہے مزاج صحت سے بے خبر ہے
دوا کا غفلت زدہ اثر ہے خبر دوا کو نہیں اثر کی
شباب نے خود نما بنایا یہ ناز خوش روئی نے جتایا
حیا میں جس وقت فرق آیا تو ان کے مکھڑے سے زلف سرکی
ہوا ہوں چورنگ تیغ حسرت کہ دفن کی ہے مری یہ صورت
کسی طرف کو ہے دل کی تربت کہیں ہے تربت مرے جگر کی
جو اس نے ضد کی تو آفت آئی دہائی دینے لگی خدائی
قیامت اس بے وفا نے ڈھائی ادھر کی دنیا شرفؔ ادھر کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |