جواں مردی

جواں مردی
by محمود الظفر
319608جواں مردیمحمود الظفر

وہ میری بیوی جا رہی، مگر اس کے لبوں پر اس مسکراہٹ کا نام تک نہیں جیسا کہ لوگوں نے میری تسکین قلب کے لیے مجھ سے کہا تھا۔ بس ہڈیوں کا ایک ڈھانچا ہے۔ اس کی بھیانک صور ت سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک مہلک بیماری کا شکار ہے اور موت کا خوف اس پر طاری ہے۔ اس کی آنکھوں میں میرے لیے اب لطف اور پیار کی جگہ بیگانگی اور نفرت ہے، میں مستحق ہی اس کا تھا۔ اس نفرت کی وجہ، وہ نازائیدہ بچہ ہے جس کا سر اس کے کولے ف کی ہڈیوں میں اب تک پھنسا دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے اس کی جان گئی۔ یہ بھلا کسے خیال ہو سکتا تھا کہ میری بیوی کو مرتے وقت مجھ سے نفرت ہو گی۔ میں نے اس کو تکلیف اور موت سے بچانے کے لیے کون سی بات اٹھا رکھی تھی، مگر نہیں۔ میں ہی اس کی موت کا باعث ہوا، میں نے ہی اس کو درد اور دکھ پہنچایا، مردوں کی جہالت اور حماقت کی کوئی انتہا نہیں۔ مگر یہ بھی کہنا صحیح نہییں کہ میں جہالت اور حماقت کا شکار تھا۔ ہاں یہ سراسر غلط ہے۔ دراصل میں غرور کے پنجہ میں گرفتار تھا جس کا مجھے اعتراف ہے۔

ہماری شادی ایسی عمر میں ہوئی تھی جب ہم میں ایک دوسرے کے جذبات سمجھنے کی صلاحیت تک نہ تھی۔ لیکن بعد میں جو حادثہ پیش آیا اس کا الزام میں قسمت، یا ایسے حالات پر جن پر مجھے کوئی قابو نہ تھا، نہیں رکھنا چاہتا۔

مجھے اپنی بیوی سے کبھی محبت نہیں ہوئی اور ہوتی بھی کیسے؟ ہم دو مختلف دائرہ زندگی میں گرداں تھے۔ میری بیوی پرانے زمانے کی تنگ و تاریک گلیوں میں اور میں نئے زمانے کی صاف اور چوڑی پکی سڑکوں پر۔ لیکن جب میں دوسرے ملکوں میں گیا اور اس سے کئی برس تک جدا رہا تو کبھی کبھی میرا دل اس کے لیے بے چین ہوتا تھا۔ وہ اپنے چھوٹے سے مستحکم پرانے قلعہ میں تھی، اور میں زندگی کی دوا دوش فضول اور بے فیض عشق بازی سے تنگ آ کر کبھی کبھی اس پاک و باوفا عورت کا خواب دیکھا کرتا تھا جو بلا کسی معاوضہ کے مجھ پر سے سب کچھ نثار کرنے کے لیے تیار تھی۔ جب میری یہ کیفیت ہوتی۔۔۔ تو بیتابی کے ساتھ مجھے اس سے ملنے کی خواہش ہوتی۔ ایک دفعہ مجھ پر ایسی ہی کیفیت طاری تھی کہ مجھے اس کا ایک خط ملا۔ میں بیقرار ہو گیا اور فوراً چھ ہزار میل کے فاصلے سے وطن کی طرف چل پڑا۔ اس نے خط میں لکھا تھا،

’’میں نے ابھی تکیہ کے نیچے سے آپ کا خط نکال کر پڑھا۔ بہت مختصر ہے۔ غالباً آپ اپنے میں مشغول ہوں گے، مگر خیر مجھے اس کی کوئی شکایت نہیں، بس آپ کی مجھے خیرت معلوم ہوتی رہے اور آپ اچھے رہیں اور خوش رہیں، میرے لیے یہی کافی ہے۔ جب سے میں بیمار ہوں سوائے اس کے کہ آپ کو یاد کروں اور ان عجیب عجیب چیزوں اور نئے نئے لوگوں کا خیال کروں جن سے آپ وہاں ملتے ہوں گے مجھے اور کام نہیں، مجھ سے چلا نہیں جاتا اس وجہ سے پلنگ پر پڑی پڑی طرح طرح کے خیال کیا کرتی ہوں۔ کبھی تو اس میں لطف آتا ہے اور کبھی اس سے سخت تکلیلف ہوتی ہے، جب لوگ میری صحت کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور مجھ سے اظہار ہمدردی کرتے ہیں اور یہ نصیحت کرتے ہیں تو مجھے بڑی کوفت ہوتی ہے، یہ لوگ یہ تک نہیں سمجھتے کہ مجھے کیا روگ ہے۔ انھیں صرف اپنی تسکین قلب کے لیے میری حالت پر رحم آتا ہے۔ اپنے والدین پر بھی بار ہوں، وہ اپنے جی میں خیال کرتے ہوں گے کہ باوجود میری شادی ہو جانے کے میں ایسی بدنصیب ہوں کہ ان کے گلے پڑی ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ میں ہر وقت اس کوشش میں رہتی ہوں کہ بہت زیادہ مایوسی اور رنج کا اظہار نہ کروں اور میرے والدین ایسی کوشش کرتے ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انھیں میری بیماری کی وجہ سے بڑا تردد اور فکر ہے۔ غرض دونوں طرف بناوٹ ہی بناوٹ ہے۔ میں آپ سے کسی بات کی شکایت کرنا نں او چاہتی اور نہ آپ کے کام میں ہارج ہونا چاہتی ہوں۔ آپ مجھے بھول نہ جائیں اور کبھی کبھی خط لکھ دیا کریں، میرے لیے یہی بہت ہے بلکہ کبھی کبھی تو مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ آپ کا مجھ سے دور ہی رہنا بہتر ہے۔ مجھے ڈر اس بات کا ہے کہ جیسے بیماری کے بعد سے یہاں میں قریب قریب سب سے نا آشنا سی ہو گئی ہوں ویسے ہی میں کہیں آپ کو بھی نہ کھو بیٹھوں۔ دن رات میری بری حالت دیکھ کر کہیں آپ کا دل بھی میری طرف سے نہ ہٹ جائے۔ وہاں سے تو آپ محض اس کا تصور کر سکتے ہیں اور میں آپ کو اپنا وہ کامل دمساز تصور کر سکتی ہوں جس کی میرے دل کو تمنا ہے۔‘‘

جب مجھے یہ خط ملا تو مجھ پر عشق و محبت کی ایک لہر سی دوڑ گئی، گو کہ وہ بیمار تھی اور اسے روگ لگ گیا تھا مگر اس کو سینے سے لگانا میرا فرض تھا، میں یہ ثابت کر دینا چاہتا تھا کہ میری محبت میں کوئی بات حائل نہیں ہو سکتی، میں چاہتا تھا کہ اسے معلوم ہو جائے کہ میں ہی وہ کامل دمساز ہوں جس کی اسے جستجو تھی، میں نے اپنے کو قصور وار اور برا قرار دیا اور اس کو معصوم اور نرمل، جیسی اس نے میرے ساتھ خاکساری برتی اور میری خدمت گزاری کی، میرا بھی فرض تھا کہ میں اس کے ساتھ ویسا ہی سلوک کروں۔ یہ تہیہ کر کے میں اپنا کام چھوڑ کر گھر کی طرف چل کھڑا ہوا۔

میں ابھی راستے ہی میں تھا میرے جذبات میں تبدیلیاں ہونے لگیں۔ وہ شروع کا سا پاک جذبہ بالکل غائب ہو گیا اور روز مرہ کی چھوٹی چھوٹی باتوں کی طرف میرے خیالات دوڑنے لگے، مثلاً روزی کمانے کی میں کون صورت نکالوں گا اپنے دوستوں مین سے کن کن سے ملاقات جاری رکھوں گا۔ اپنے سسر اور ساس سے کس طرح ملوں گا، ان سے صاف صاف باتیں کروں یایہ کہ ان کی طرف سے بے رخی برتوں، وغیرہ وغیرہ۔ صرف اپنی بیوی سے ملنے کی پہلے کی سی تمنا باقی نہ رہی، یہ ہی نہیں بلکہ ذرا ذرا سے روزانہ زندگی کے مسئلوں نے میری تمناؤں اور ولولوں کا خاتمہ کر دیا۔ گھر پہنچنے پر یہ مسایل مکروہ حقیقتوں سے بدل گئے جن سے گریز ناممکن تھا۔ پرانے زمانے کی جن جن دلفریبوں کی میں نے اپنے ذہن میں تصویر کھینچی تھی ان کا کہیں پتہ بھی نہ تھا بجائے اس کے میں نے خود کو ایک تنگ و تاریک، گندی، ظلم اور جہل سے لبریز دنیا میں بند پایا، اسٹیشن پر جو لوگ مجھ سے ملنے آئے ان میں اکثر بیہودہ، بدمعاش، تنگ نظر اور ناکارہ قسم کے آدمی تھے، ان سب نے بہت خوشی کے ساتھ میرا استقبال کیا، مجھے بٹھایا گیا، مجھ پر فقرے کسے گئے، وہی پرانے ناشائستہ مذاق ہوئے اور دوسروں کی عیب جوئی کی گئی۔ کئی دن تک جلسوں اور دعوتوں کا سلسلہ رہا۔ اس کے بعد کہیں ان لوگوں سے نجات ملی۔ اس درمیان میں میں اپنی بیوی سے صرف تھوڑی تھوڑی دیر کے لیے مل سکا۔ لیکن اس کے تیل سے چپکے ہوئے بال، اس کا لاغر جسم اور زدر چہرہ؛ دعوتوں، رقص و سرود کے جلسوں اور ادھر ادھر بات چیت کے وقت بھی بار بار میری نظر کے سامنے آ جاتا تھا۔

جب سب مہمان رخصت ہو گئے تو میں اپنی بیوی کے پاس گیا اور اس کے قریب پلنگ پر جا کر بیٹھا۔ وہ ساکت لیٹی رہی اور میری طرف اس نے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔ میں تھوڑی دیر تک تو اس کی ہر سانس کے ساتھ اس کے سینہ کا اتار چڑھاؤ دیکھتا رہا۔ پھر میں نے اس کا نحیف ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کچھ دیر تک ہم دونوں یوں ہی خاموش بیٹھے رہے۔ پھر میں بولا،

’’لیجیے اب تو میں آپ کے پاس آ گیا، کچھ باتیں کیجیے، آپ اتنی چپ کیوں ہیں؟‘‘

اس جواب دیا، ’’میں کیا باتیں کروں، خیر آپ آ گئے۔‘‘

میں نے دفعتاً یہ محسوس کیا کہ اس طرح کام نہیں چلنے کا۔ میں نے شروع میں جو تہیہ کیا تھا وہ مجھے یاد آ گیا اور میں نے جلدی سے کہا،

’’واہ، آپ کو کہنا تو مجھ سے بہت کچھ ہے، اتنے دن جو میں یہاں نہیں رہا تو آپ کیا کرتی رہیں اور کیسی رہیں سب مجھے بتائیے، آخر اتنے دن تک آپ نے مجھ سے بات چیت نہیں کی اب اس کی کسر نکالیے، یاد ہے آپ کو آپ نے مجھے ایک دفعہ خط میں لکھا تھا کہ آپ کو ایک ہمدم و دمساز کی جستجو ہے۔ میں ہی وہ شخص ہوں اور اب آپ کے پاس اس لیے آیا ہوں کہ ہروقت آپ کے ساتھ رہوں اور کبھی آپ سے جدا نہ ہوں۔‘‘

مگر میری تمام کوششیں بیکار ثابت ہوئیں۔ میری باتوں سے ظاہر تھا کہ رٹے ہوئے سبق کی طرح اوپری ہیں اور ان سے میری بیوی کی کوئی تسلی نہیں ہوئی۔ کچھ دیر تک مجھے یہ امید رہی کہ اسے اس کا شاید احساس نہیں ہوا۔ مگر وہ گھبراہٹ اور بے چینی سے میری ٹوپی اٹھاکر ہاتھوں سے ملنے دلنے لگی اور پھر ایسی گفتگو شروع کی کہ مجھے اپنی ناکامیابی کا یقین ہو گیا۔

اس نے کہا، ’’بھلا میں کیا کہوں؟ یہاں تو جیسے دن ویسی رات لیکن آپ کیوں چپ ہیں؟ آپ کو نئے نئے تجربے ہوئے ہوں گے، اہم امور سے سابقہ پڑا ہوگا۔ آپ مجھ سے ان سب باتوں کا تذکرہ کیجیے، وہاں کی عجیب عجیب چیزیں، طرح طرح کی مشین، قسم قسم کے لوگ، نئی زندگی، آپ لکھا کرتے کہ آپ کو ان سب کے بارے میں مجھے لکھنے کا وقت نہیں، لیکن اب تو آپ میرے پاس ہیں، اب تو آپ کو وقت ہے۔‘‘

یہ اس نے جان کر میری خود بینی پر حملہ کیا۔ اب مجھے معلوم ہو گیا کہ برسوں کی جدائی نے ہمارے تعلقات میں مطلقاً کوئی فرق پیدا نہیں کیا ہم پہلے کی طرح اب بھی ایک دوسرے سے نا آشنا تھے اور ایک دریا کے دو مختلف کناروں پر اجنبی کی طرح کھڑے ہوئے تھے، ہم نے پھر ایک دوسرے کے ساتھ ریا کاری شروع کر دی۔

میں نے کہا، ’’ہاں ہاں مجھے تو آپ سے بہت سی باتیں کرنی ہیں، ہم دونوں مل کر کیاکیا کریں گے، یہ طے کرنا ہے۔ لیکن پہلے آپ جلدی سے اچھی تو ہو جائیے، جب آپ اچھی ہو جائیں گی تب ہم اس کے بارے میں گفتگو کریں گے، ابھی تو آپ کو خاموشی سے آرام کرنا چاہیے، آپ اپنے دل و دماغ پر زور نہ ڈالیے، میرے آنے کی وجہ سے غالباً آپ کو تکان ہو گیا۔ آپ آرام کیجیے اور زیادہ سوچئے مت، اچھا مٰں ی اب جاتا ہوں آپ سو جائیے۔‘‘

میں نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور وہاں سے اٹھ کر چلا آیا۔

اس کے بعد نہ تو میں نے اس سے زیادہ رابطہ بڑھانے کی کوشش کی اور نہ کسی خاص بات پر زیادہ دیر تک گفتگو ہی کی۔ دن میں ایک دو دفعہ اسے دیکھنے جایا کرتا، دریافت کرتا کہ اس کی صحت کیسی ہے اور ایسی ہی دو ایک باتیں کر کے چلا آتا اور اپنے کام میں مصروف ہو جاتا۔ اتفاق سے میرا کام بھی ان دنوں کچھ اچھا نہیں چل رہا تھا اور مجھے فرصت کافی تھی۔

رفتہ رفتہ میں پھر اپنے پرانے دوستوں کی صحبت میں رہنے لگا اور ان کی لغو اور فضول عادتیں مجھ میں بھی آ گئیں۔ تاش، شراب اور بے سر و پا باتوں کا سلسلہ جاری رہنے لگا۔ ہم اپنے کو موسیقی کا بھی ماہر سمجھتے تھے اور شہر کی نامور گانے والیوں کے سر پرست بن بیٹھے۔ ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ میں نے ایک عورت بھی رکھ لی تھی۔ ہم نے بے معنی اور بے مقصد زندگی بسر کرنے کی یہی ترکیبیں نکالی تھیں۔ ہم میں سے جو لوگ غیر ممالک کا سفر کر آتے تھے وہ اپنی جواں مردی اور عاشقی کی داستانیں دوسروں کو سنا سنا کر ان پر رعب جماتے تھے۔

لیکن مجھے اپنی بیوی سے چھٹکارا پانا ناممکن تھا۔ اس کی صحت کی خرابی کی وجہ سے میرے پاس مزاج پرسی کے لیے خطوط اور دوستوں اور رشتہ داروں کا ایک سلسلہ قایم رہتا۔ کوئی مجھے نصیحت کرتا تو کوئی فضیحت، کوئی دلاسا دیتا تو کوئی اظہار ہمدردی کرتا، ان سب باتوں سے میری زندگی عزاب ہو گئی۔ میرے ساس اور سسر کو میری آزادہ روی بہت کھلتی تھی، وہ ڈرتے تھے کہ کہیں میں ان کی لڑکی کو بالکل چھوڑ نہ دوں۔ ادھر میری والدہ صبح شام مجھ سے دوسری شادی کر لینے پر مصر تھیں۔ خاندان میں دو ایسے گروہ بن گئے جنھیں ایک دوسرے سے سخت عداوت تھی۔ دونوں مجھے اپنی طرف کھینچنے کی ہر وقت کوشش کرتے رہتے تھے۔

لیکن باوجود والدہ کے اصرار کے میں دوسری شادی کرنے پر راضی نہیں ہوا۔ آخر کار لوگوں نے میری مردانگی پر شک کرنا شروع کیا اور طرح طرح کی چہ میگوئیاں کرنے لگے۔ اس پر تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے یہ تہیہ کر لیا کہ کچھ نہ کچھ ضرور کرنا چاہیے۔

میں اپنی سسرال گیا اور وہاں جا کر کہا،

’’آپ کی لڑکی بیمار ویمار کچھ بھی نہیں، یہ سب خواہ مخواہ اسے اپنے یہاں روکنے کے بہانے ہیں۔ میں اسے اپنے ساتھ لیے جاتا ہوں۔‘‘

اپنی بیوی سے بھی میں نے کہا،

’’آپ بالکل بیمار نہیں، کم از کم ایسی بیمار نہیں جیسا یہاں لوگ آپ کو بتانا چاہتے ہیں، یہ سب آپ کے والدین کی چال ہے، یہ بات کچھ آپ سے چھپی ہوئی نہیں ہے، آپ میرے ساتھ چل کر رہیے تب پتہ چلے گا کہ آپ کو کیا بیماری ہے۔‘‘

پہلے تو میری صاف گوئی اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آئی مگر تھوڑی بہت تکرار کے بعد وہ میرے ساتھ چلنے پر راضی ہو گئی۔

ہم دونوں نے ایک لمبا سفر کیا، اور دورپہاڑوں پر جا کر رہنے لگے برفستان کی خشک اور تازہ ہوا میں دور دور ٹہلنے کے لیے نکل جاتے۔

جب تھوڑے دنوں بعد میری بیوی کی صحت ٹھیک ہو گئی تو میں اسے لے کر گھر آیا۔ میرے دوستوں اور رشتہ داروں نے جب ہمیں دیکھا تو میرے لیے یہ بڑے فخر کا موقع تھا۔ مگر ان کے دلوں میں شک باقی رہ گیا وہ پورے ثبوت کے لیے کسی اور چیز کے خواہاں تھے۔ لیکن مجھے اپنی فتحیابی کا پورا یقین تھا۔ ایک مہینے کے بعد دوسرا مہینہ آہستہ آہستہ گزرتا جاتا تھا اور میری بیوی کا پیٹ بڑھتا جاتا تھا۔

میری حالت اس مالی کی سی تھی جو اپنے لگائے ہوئے درختوں پر کلیوں کو کھلتے ہوئے دیکھ کر باغ باغ ہوتا ہے۔ ہر ہر دن، ہر ہر لمحہ کے بعد میری کامیابی زیادہ نمایاں ہوتی جاتی۔ لیکن میری بیوی خاموش رہتی۔ میں سمجھتا تام کہ اس کا سبب غالباً زچگی کی گھبراہٹ اور پریشانی ہے۔ آخر کار اس کو دردزہ شروع ہوا۔ گھنٹوں تک کرب اور بے چینی کا عالم رہا۔ جسم شدت تکلیف سے تڑپ رہا تھا اور کسی پہلو اسے چین نہیں تھا۔ روح تک معلوم ہوتا تھا کہ آہ و فریاد کر رہی ہے۔ لیکن اس کی بیکلی اور تڑپ، اس کی آہ و زاری ان سب سے میری جواں مردی کا ثبوت مل رہا تھا۔

معاذاللہ! میرے کانوں میں ابھی تک اس کا درد ناک کراہنا گونج رہا ہے۔ اور اس کے بعد چاروں طرف جو خاموشی چھا گئی اور جس نے میری اکڑ اور شان کو خاک میں ملا دیا، وہ سماں بھی ابھی تک میری آنکھوں کے سامنے ہے۔ لیکن اس کے مرنے کے بعد جب لوگ مجھ سے یہ کہنے آئے کہ مرتے وقت اس کے لبوں پر مسکراہٹ تھی تو میرے دل کو کچھ سکون ہو گیا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.