جور زمیں نہ تھا ستم آسماں نہ تھا
جور زمیں نہ تھا ستم آسماں نہ تھا
وہ بھی تھا وقت جب کہ غم دو جہاں نہ تھا
کوئی بھی لطف زیست تہہ آسماں نہ تھا
دنیا مری خراب تھی تو مہرباں نہ تھا
سنتا یہ کون ضبط پہ قابو نہیں ہے اب
اچھا ہوا جو کوئی مرا راز داں نہ تھا
دیوانگی نے بات بنا دی کہ اس سے میں
ضد کر رہا ہوں اب کہ یہ میرا بیاں نہ تھا
بدنام خود ہوئے ہو زباں سے نکال کر
میرا سوا تمہارے کوئی راز داں نہ تھا
سجدوں کی داد مل گئی باب قبول سے
مانا نظر کے سامنے وہ آستاں نہ تھا
مایوسیٔ نظر کے مناظر ہیں خوفناک
پھر آپ ہی کہیں گے مجھے یہ گماں نہ تھا
وہ میرے سامنے تھے میں تھا ان کے سامنے
جب تک کہ میرا راز کسی پر عیاں نہ تھا
للہ ہم سے قصۂ عالمؔ نہ پوچھئے
سنتے ہیں لاش پر کوئی بھی نوحہ خواں نہ تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |