جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا

جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
by مرزا غالب

جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا

ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا

عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
مر گیے پر دیکھیے دکھلائیں کیا

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse