جوں شمع دم صبح میں یاں سے سفری ہوں

جوں شمع دم صبح میں یاں سے سفری ہوں
by قائم چاندپوری

جوں شمع دم صبح میں یاں سے سفری ہوں
ٹک منتظر جنبش باد سحری ہوں

نے گریۂ شب ہوں میں نہ آہ سحری ہوں
جوں بانگ جرس ہم نفس بے اثری ہوں

جاتا ہوں میں جیدھر کو وہ منہ پھیرے ہے مجھ سے
گویا کہ میں گرد قدم رہ گزری ہوں

دیکھا نہ میں جز سایۂ بازوئے شکستہ
حرماں زدہ جوں حسرت بے بال و پری ہوں

میں پیرہن اپنے میں سماتا نہیں جوں گل
جس وقت سے آمادہ پئے جامہ دری ہوں

سو خضر سے کم حوصلہ واں جی سے گئے ہیں
جس دشت خطرناک کا میں رہ گزری ہوں

جوں سرد رکھا سنگ جفا سے مجھے آزاد
مرہون ترا جی سے میں اے بے ثمری ہوں

کیا کم ہوں سکندر سے اگر دیکھیے مجھ کو
آئینہ صفت مالک خشکی و تری ہوں

کس بزم میں دیکھی ہے وہ جھمکی کہ میں قائمؔ
جوں شمع سدا محو پریشاں نظری ہوں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse