جو آوے منہ پہ ترے ماہتاب ہے کیا چیز

جو آوے منہ پہ ترے ماہتاب ہے کیا چیز
by نظیر اکبر آبادی

جو آوے منہ پہ ترے ماہتاب ہے کیا چیز
غرض یہ ماہ تو کیا آفتاب ہے کیا چیز

یہ پیرہن میں ہے اس گورے گورے تن کی جھلک
کہ جس کے سامنے موتی کی آب ہے کیا چیز

بھلا دیں ہم نے کتابیں کہ اس پری رو کے
کتابی چہرے کے آگے کتاب ہے کیا چیز

تمہارے ہجر میں آنکھیں ہماری مدت سے
نہیں یہ جانتیں دنیا میں خواب ہے کیا چیز

نظیرؔ حضرت دل کا نہ کچھ کھلا احوال
میں کس سے پوچھوں یہ ندرت مآب ہے کیا چیز

جو سخت ہووے تو ایسا کہ کوہ آہن کا
جو نرم ہووے تو برگ گلاب ہے کیا چیز

گھڑی میں سنگ گھڑی موم اور گھڑی فولاد
خدا ہی جانے یہ عالی جناب ہے کیا چیز

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse