جو ان سے کہو وہ یقیں جانتے ہیں
جو ان سے کہو وہ یقیں جانتے ہیں
وہ ایسے ہیں کچھ بھی نہیں جانتے ہیں
بڑے جنتی ہیں یہ مے خوار زاہد
مئے تلخ کو انگبیں جانتے ہیں
جوانی خود آتی ہے سو حسن لے کر
جواں کوئی ہو ہم حسیں جانتے ہیں
شب ماہ بنتی ہے ہر شب مرے گھر
یہ سب بادہ وش مہ جبیں جانتے ہیں
بناوٹ بھی اک فن ہے جو جانتا ہو
تری سادگی کچھ ہمیں جانتے ہیں
نگاہیں نہ آنکھوں کے گھونگھٹ سے نکلیں
ادائیں غضب شرمگیں جانتے ہیں
تری کم نگاہی سے ابھرے ہیں فتنے
تجھے غیر چیں بر جبیں جانتے ہیں
مری جان پر رات بن بن گئی ہے
مرا حال کچھ ہم نشیں جانتے ہیں
جو واقف نہیں لطف تجدید سے کچھ
وہ توبہ کی لذت نہیں جانتے ہیں
وہ شرمیلی آنکھیں وہ شرمیلی باتیں
وہ ہنسنا بھی کھل کر نہیں جانتے ہیں
مری بت پرستی بھی ہے حق پرستی
مرا مرتبہ اہل دیں جانتے ہیں
بڑے پاک طینت بڑے صاف باطن
ریاضؔ آپ کو کچھ ہمیں جانتے ہیں
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |