جو اچھے ہیں ان کی کہانی بھی اچھی
جو اچھے ہیں ان کی کہانی بھی اچھی
لڑکپن بھی اچھا جوانی بھی اچھی
تری مہربانی نہ اچھی ہو کیوں کر
کہ ہے تیری نا مہربانی بھی اچھی
در یار سے ہم کو اٹھنا ہے مشکل
جو ایسی ہو تو ناتوانی بھی اچھی
ترے تیر کو اپنا دل کیوں نہ دیں ہم
نشانہ بھی اچھا نشانی بھی اچھی
جو ہو صدق دل سے کوئی سننے والا
تو واللہ جھوٹی کہانی بھی اچھی
کہیں عشق میں بد گمانی بری ہے
کہیں عشق میں بد گمانی بھی اچھی
مئے ناب کی قدر ہم جانتے ہیں
نئی تو نئی یہ پرانی بھی اچھی
نہ ہو دل میں لیکن مرے دل کے حق میں
تمہاری محبت زبانی بھی اچھی
اگر نوحؔ کی شعر گوئی ہے بہتر
تو ہے نوحؔ کی شعر خوانی بھی اچھی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |