جو بات تجھ سے چاہی ہے اپنا مزاج آج
جو بات تجھ سے چاہی ہے اپنا مزاج آج
قربان تیری کل پہ نہ ٹال آج آج آج
دہکی ہے آگ دل میں پڑے اشتیاق کی
تیرے سوائے کس سے ہو اس کا علاج آج
ہے فوج فوج غمزہ و انداز تیرے ساتھ
اقلیم ناز کا ہے تجھے تخت و تاج آج
تیرا وہ حسن ہے کہ جو ہوتا تو بھیجتا
یوسف زمین مصر سے تجھ کو خراج آج
خوباں روزگار مقلد ترے ہیں سب
جو چیز تو کرے سو وہ پاوے رواج آج
آب زلال وصل سے اندوہ درد و ہجر
ناپید گھل کے ہوتا ہے کیا مثل زاج آج
انشاؔ سے اپنے اور یہ انکار حیف ہے
لایا ہے وہ کبھی نہ کبھی احتیاج آج
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |