جو بات ہے تیری سو نرالی

جو بات ہے تیری سو نرالی
by میر اثر

جو بات ہے تیری سو نرالی
عشاق کشی نئی نکالی

تیر مژگان بھی ہے اس پر
ابرو کی تیغ بھی سنبھالی

سمجھے ہے ظاہراً وہ دل کی
دیتا ہے جو در جواب گالی

ناخن زن ہیں بدل یہ انگشت
یہ صرف نہیں حنا کی لالی

ہیں روز ازل سے ہم گرفتار
دیکھی نہ کبھو فراغ بالی

تو تو ہے ہی پہ میں بھی پیارے
ہوں بے پروائی لاابالی

کس طرح دکھاؤں آہ تجھ کو
میں اپنی یہ خراب حالی

ہم ہیں بندے دنی و اسفل
اور آپ کا ہے مزاج عالی

آئینۂ دل میں محو ہو کر
صورت ہی کچھ اور اب نکالی

ہے تجھ سے ہی عاشقوں کی خوبی
یا حضرت دردؔ میرے والی

دیوان اثرؔ تمام دیکھا
ہے اس میں ہر ایک شعر عالی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse