جو بھلے برے کی اٹکل نہ مرا شعار ہوتا
جو بھلے برے کی اٹکل نہ مرا شعار ہوتا
نہ جزائے خیر پاتا نہ گناہ گار ہوتا
مے بے خودی کا ساقی مجھے ایک جرعہ بس تھا
نہ کبھی نشہ اترتا نہ کبھی خمار ہوتا
میں کبھی کا مر بھی رہتا نہ غم فراق سہتا
اگر اپنی زندگی پر مجھے اختیار ہوتا
یہ جو عشق جاں ستاں ہے یہ جو بحر بیکراں ہے
نہ سنا کوئی سفینہ کبھی اس سے پار ہوتا
کبھی بھول کر کسی سے نہ کرو سلوک ایسا
کہ جو کوئی تم سے کرتا تمہیں ناگوار ہوتا
ہے اس انجمن میں یکساں عدم و وجود میرا
کہ جو میں یہاں نہ ہوتا یہی کاروبار ہوتا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |