جو تو ہو پاس تو دیکھوں بہار آنکھوں سے

جو تو ہو پاس تو دیکھوں بہار آنکھوں سے
by میر محمدی بیدار

جو تو ہو پاس تو دیکھوں بہار آنکھوں سے
وگرنہ کرتے ہیں گل کار خار آنکھوں سے

کہاں ہے تو کہ میں کھینچوں ہوں راہ میں تیری
بسان نقش قدم انتظار آنکھوں سے

زبس کہ آتش غم شعلہ زن ہے سینہ میں
گریں ہیں اشک کی جاگہ شرار آنکھوں سے

میں یاد کر در دندان یار روتا ہوں
ٹپکتے ہیں گہر آب دار آنکھوں سے

ٹک آ کے دیکھ تو اے سرو قد مرا احوال
رواں ہے غم میں ترے جوئبار آنکھوں سے

چڑھاؤں دستۂ نرگس مزار مجنوں پر
جو دیکھوں آج میں روئے نگار آنکھوں سے

چمن میں کل کوئی تجھ سا پری نظر نہ پڑا
اگرچہ دیکھے ہیں جا کر ہزار آنکھوں سے

ہوا ہے دیدۂ بیدارؔ گل فشاں جب سے
گرا ہے تب سے یہ ابر بہار آنکھوں سے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse