جو روئیں درد دل سے تلملا کر
جو روئیں درد دل سے تلملا کر
تو وہ ہنستا ہے کیا کیا کھلکھلا کر
یہی دیکھا کہ اٹھوائے گئے بس
جو دیکھا ٹک ادھر کو آنکھ اٹھا کر
بھلا دیکھیں یہ کن آنکھوں سے کیوں جی
کسی کو دیکھنا ہم کو دکھا کر
کھڑا رہنے نہ دیں وو اب کہ جو شخص
اٹھاتے تھے مزے ہم کو بٹھا کر
گیا وو دل بھی پہلو سے کہ جس کو
کبھی روتے تھے چھاتی سے لگا کر
چلی جاتی ہے تو اے عمر رفتہ
یہ ہم کو کس مصیبت میں پھنسا کر
خط آیا واں سے ایسا جس سے اپنا
نوشتہ خوب سمجھے ہم پڑھا کر
ابھی گھر سے نہیں نکلا وہ تس پر
چلا گھر بار اک عالم لٹا کر
دیا دھڑکا اسے کچھ وصل میں ہائے
بگاڑی بات گردوں نے بنا کر
محبت ان دنو جو گھٹ گئی واں
تو کچھ پاتے نہیں اس پاس جا کر
مگر ہم شوق کے غلبے سے ہر بار
خجل ہوتے ہیں ہاتھ اپنا بڑھا کر
نہیں منہ سے نکلتی اس کے کچھ بات
کسی نے کیا کہا جرأتؔ سے آ کر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |