جو عین وصل میں آرام سے نہیں واقف

جو عین وصل میں آرام سے نہیں واقف
by شاہ نصیر

جو عین وصل میں آرام سے نہیں واقف
وہ مطلب دل خود کام سے نہیں واقف

ہنسا چمن میں جو دل دیکھ صورت صیاد
یہ مرغ دانے سے اور دام سے نہیں واقف

تمام شہر میں جس کے لیے ہوئے بد نام
وہ اب تلک بھی مرے نام سے نہیں واقف

ہر ایک عشق کے کب قاعدے سے محرم ہے
ہنوز شیخ الف لام سے نہیں واقف

ہزار حیف یہاں چھت سے لگ گئیں آنکھیں
وہاں وہ شوخ لب بام سے نہیں واقف

دلا عبث طلب بوسہ ہے تجھے اس سے
وہ لعل لب کہ لب جام سے نہیں واقف

سجی ہے لیک اسے زر کلاہ گزری کی
فقیر اطلس و پیلام سے نہیں واقف

تپش سے دل کی خبر ہووے ہے یہاں معلوم
میں طرز نامہ و پیغام سے نہیں واقف

نہ خوش وصال میں ہو رکھ تو یاد ہجر نصیرؔ
مگر تو گردش ایام سے نہیں واقف

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse