جو نہ وہم و گمان میں آوے

جو نہ وہم و گمان میں آوے
by غمگین دہلوی
302898جو نہ وہم و گمان میں آوےغمگین دہلوی

جو نہ وہم و گمان میں آوے
کس طرح تیرے دھیان میں آوے

تجھ سے ہمدم رکھوں نہ پوشیدہ
حال دل گر بیان میں آوے

میری یہ آرزو ہے وقت مرگ
اس کی آواز کان میں آوے

میں نہ دوں گا جواب تو کہہ لے
جو کہ تیری زبان میں آوے

یہ شب وصل خیر سے گزرے
تو مری جان جان میں آوے

ہائے کیا ہو ابھی جو اے ہمدم
وہ صنم اس مکان میں آوے

گر کھلے چشم دل تو تجھ کو نظر
وہ ہی سارے جہان میں آوے

اس کی تعریف کیا کروں غمگیںؔ
ہل اتیٰ جس کی شان میں آوے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.