جو پوچھا میں نے یاں آنا مرا منظور رکھیے گا
جو پوچھا میں نے یاں آنا مرا منظور رکھیے گا
تو سن کر یوں کہا یہ بات دل سے دور رکھیے گا
بہت روئیں یہ آنکھیں اور پڑی دن رات روتی ہیں
اب ان کو چشم بھی کیجے گا یا ناسور رکھیے گا
جو پردہ بزم میں منہ سے اٹھاتے ہو تو یہ کہہ دو
کہ پھر یاں شمع کے جلنے کا کیا مذکور رکھیے گا
دیا دل ہم نے تم کو اور تو اب کیا کہیں لیکن
یہ ویرانہ تمہارا ہے اسے معمور رکھیے گا
نظیرؔ اب تو دل و جاں سے تمہارا ہو چکا بندہ
میاں اپنے غلاموں میں اسے مشہور رکھیے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |