جو کچھ بھی ہے نظر میں سو وہم نمود ہے
جو کچھ بھی ہے نظر میں سو وہم نمود ہے
عالم تمام ایک طلسم وجود ہے
آرائش نمود سے بزم جمود ہے
میری جبین شوق دلیل سجود ہے
ہستی کا راز کیا ہے غم ہست و بود ہے
عالم تمام دام رسوم و قیود ہے
عکس جمال یار سے وہم نمود ہے
ورنہ وجود خلق بھی خود بے وجود ہے
اب کشتگان شوق کو کچھ بھی نہ چاہیئے
فرش زمیں ہے سایۂ چرخ کبود ہے
ہنگامۂ بہار کی اللہ رے شوخیاں
زاغ و زغن کا شور بھی صوت و سرود ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |