جو ہوئی سو ہوئی جانے دو ملو بسم اللہ
جو ہوئی سو ہوئی جانے دو ملو بسم اللہ
جام مے ہاتھ سے لو میرے پیو بسم اللہ
منتظر آپ کے آنے کا کئی دن سے ہوں
کیا ہے تاخیر قدم رنجہ کرو بسم اللہ
لے چکے دل تو پھر اب کیا ہے سبب رنجش کا
جی بھی حاضر ہے جو لیتے ہو تو لو بسم اللہ
میں تو ہوں کشتۂ ابروئے بت مصحف رو
مو قلم سے مرے تربت پہ لکھو بسم اللہ
ذبح کرنا ہی مجھے تم کو ہے منظور اگر
میں بھی حاضر ہوں مری جان اٹھو بسم اللہ
ہوتے آزردہ ہو آنے سے ہمارے جو تم
خوش رہو مت ہو خفا ہم چلے لو بسم اللہ
عین راحت ہے مجھے بندہ نوازا اس میں
قدم آنکھوں پہ مری آ کے رکھو بسم اللہ
جن کی رہتے ہو شب و روز تم اب صحبت میں
جاؤ اے جان اب ان کے ہی رہو بسم اللہ
مست نکلا ہے مئے حسن میں بیدارؔ وہ شوخ
دیکھنا گر نہ پڑے کہتے چلو بسم اللہ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |