جو ہونی تھی وہ ہم نشیں ہو چکی
جو ہونی تھی وہ ہم نشیں ہو چکی
مرے مدعا پر نہیں ہو چکی
برا ہو مری ناتوانی ترا
نگاہ دم واپسیں ہو چکی
امید کرم کچھ نہ ساقی سے رکھ
کہ اب وہ مے ساتگیں ہو چکی
سناؤں اگر تا قیامت تو کیا
کہانی مری دل نشیں ہو چکی
کروں کس طرح اب میں عرض نیاز
کہ باقی ہے در اور جبیں ہو چکی
تراوش کہاں زخم دل میں وہ اب
کہیں کچھ رہی ہے کہیں ہو چکی
بس اب ہاتھ سے رکھ دو شیداؔ قلم
تمہاری غزل کی زمیں ہو چکی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |