جگر خوں ہو کے باہر دیدۂ گریان آوے گا
جگر خوں ہو کے باہر دیدۂ گریان آوے گا
یہی رونا رہا تو آج کل طوفان آوے گا
خبر آتے ہی پوچھے ہے ظالم بیٹھ جا یک دم
حقیقت سب کہوں گا مجھ میں جب اوسان آوے گا
نہ ہے اب خاک افشانی نہ حیرانی نہ عریانی
جنوں گر آ گیا تو لے کے سب سامان آوے گا
پڑھوں گا پیچھے نامہ میں خدا کے واسطے قاصد
یہ کہہ اول کہ یاں تک وہ کسی عنوان آوے گا
نہ جا اے جان ٹک تو اور بھی اک رات اس تن سے
سنا ہے کل کے دن وہ گھر مرے مہمان آوے گا
کسی کی قدر جیتے جی نہیں معلوم ہوتی ہے
کرے ہے قتل پر پیچھے تجھے ارمان آوے گا
گلی میں اس بت خوں خوار کی جرأتؔ چلا تو ہے
ولیکن واں سے خوں میں دیکھنا افشان آوے گا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |