316078جھونپڑانظیر اکبر آبادی

یہ تن جو ہے ہر اک کے اتارے کا جھونپڑا
اس سے ہے اب بھی سب کے سہارے کا جھونپڑا
اس سے ہے بادشہ کے نظارے کا جھونپڑا
اس میں ہی ہے فقیر بچارے کا جھونپڑا
اپنا نہ مول کا نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس میں ہی بھولے بھالے اسی میں سیانے ہیں
اس میں ہی ہوشیار اسی میں دوانے ہیں
اس میں ہی دشمن اس میں ہی اپنے بیگانے ہیں
شاجھونپڑا بھی اپنے اسی میں نمانے ہیں
اپنا نہ مول ہے نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس میں ہی لوگ عشق و محبت کے مارے ہیں
اس میں ہی شوخ حسن کے چاند اور ستارے ہیں
اس میں ہی یار دوست اسی میں پیارے ہیں
شاجھونپڑا بھی اپنے اسی میں بچارے ہیں
اپنا نہ مول ہے نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس میں ہی اہل دولت و منعم امیر ہیں
اس میں ہی رہتے سارے جہاں کے فقیر ہیں
اس میں ہی شاہ اور اسی میں وزیر ہیں
اس میں ہی ہیں صغیر اسی میں کبیر ہیں
اتنا نہ مول کا نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس میں ہی چور ٹھگ ہیں اسی میں امول ہیں
اس میں ہی رونی شکل اسی میں ٹھٹھول ہیں
اس میں ہی باجے اور نقارے و ڈھول ہیں
شاجھونپڑا بھی اس میں ہی کرتے کلول ہیں
اتنا نہ مول کا نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس میں ہی پارسا ہیں اسی میں لوند ہیں
بے درد بھی اسی میں ہے اور دردمند ہیں
اس میں ہی سب پرند اسی میں چرند ہیں
شاجھونپڑا بھی اب اسی ڈر بے بند ہیں
اتنا نہ مول کا نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس جھونپڑے میں رہتے ہیں سب شاہ اور وزیر
اس میں وکیل بخشی و متصدی اور امیر
اس میں ہی سب غریب ہیں اس میں ہی سب فقیر
شاجھونپڑا جو کہتے ہیں سچ ہے میاں نظیرؔ
اتنا نہ مول کا نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.