جھونپڑا
by نظیر اکبر آبادی

یہ تن جو ہے ہر اک کے اتارے کا جھونپڑا
اس سے ہے اب بھی سب کے سہارے کا جھونپڑا
اس سے ہے بادشہ کے نظارے کا جھونپڑا
اس میں ہی ہے فقیر بچارے کا جھونپڑا
اپنا نہ مول کا نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس میں ہی بھولے بھالے اسی میں سیانے ہیں
اس میں ہی ہوشیار اسی میں دوانے ہیں
اس میں ہی دشمن اس میں ہی اپنے بیگانے ہیں
شاجھونپڑا بھی اپنے اسی میں نمانے ہیں
اپنا نہ مول ہے نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس میں ہی لوگ عشق و محبت کے مارے ہیں
اس میں ہی شوخ حسن کے چاند اور ستارے ہیں
اس میں ہی یار دوست اسی میں پیارے ہیں
شاجھونپڑا بھی اپنے اسی میں بچارے ہیں
اپنا نہ مول ہے نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس میں ہی اہل دولت و منعم امیر ہیں
اس میں ہی رہتے سارے جہاں کے فقیر ہیں
اس میں ہی شاہ اور اسی میں وزیر ہیں
اس میں ہی ہیں صغیر اسی میں کبیر ہیں
اتنا نہ مول کا نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس میں ہی چور ٹھگ ہیں اسی میں امول ہیں
اس میں ہی رونی شکل اسی میں ٹھٹھول ہیں
اس میں ہی باجے اور نقارے و ڈھول ہیں
شاجھونپڑا بھی اس میں ہی کرتے کلول ہیں
اتنا نہ مول کا نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس میں ہی پارسا ہیں اسی میں لوند ہیں
بے درد بھی اسی میں ہے اور دردمند ہیں
اس میں ہی سب پرند اسی میں چرند ہیں
شاجھونپڑا بھی اب اسی ڈر بے بند ہیں
اتنا نہ مول کا نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا
اس جھونپڑے میں رہتے ہیں سب شاہ اور وزیر
اس میں وکیل بخشی و متصدی اور امیر
اس میں ہی سب غریب ہیں اس میں ہی سب فقیر
شاجھونپڑا جو کہتے ہیں سچ ہے میاں نظیرؔ
اتنا نہ مول کا نہ اجارے کا جھونپڑا
بابا یہ تن ہے دم کے گزارے کا جھونپڑا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse