جھونکے آتے ہیں بوئے الفت کے
جھونکے آتے ہیں بوئے الفت کے
پھول یا رب ہیں کس کی تربت کے
شور ہے دل میں غم کے نالوں کا
علم اٹھتے ہیں آج حسرت کے
تیری باتوں میں کیا حلاوت تھی
کہ نہ لب کھل سکے شکایت کے
ہم پہ اور تیغ ناز اٹھ نہ سکے
چوچلے ہیں تری نزاکت کے
اے بیاںؔ قیس و وامق و فرہاد
تھے یہ سارے مرید حضرت کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |