جھوٹی کہانی

جھوٹی کہانی (1951)
by سعادت حسن منٹو
324964جھوٹی کہانی1951سعادت حسن منٹو

کچھ عرصے سے اقلیتیں اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے بیدار ہورہی تھیں۔ ان کو خوابِ گراں سے جگانے والی اکثریتیں تھیں جو ایک مدت سے اپنے ذاتی فائدے کے لیے ان پر دباؤ ڈالتی رہی تھیں۔ اس بیداری کی لہر نے کئی انجمنیں پیدا کردی تھیں۔ ہوٹل کے بیروں کی انجمن، حجاموں کی انجمن،کلرکوں کی انجمن، اخبار میں کام کرنے والے صحافیوں کی انجمن۔ ہر اقلیت اپنی انجمن یا تو بنا چکی تھی یا بنا رہی تھی تاکہ اپنے حقوق کی حفاظت کرسکے۔

ایسی ہر انجمن کے قیام پر اخباروں میں تبصر ے ہوتے تھے۔ اکثریت کے حمایتی ان کی مخالفت تھے اور اقلیت کے طرف دار موافقت۔ غرضیکہ کچھ عرصے سے ایک اچھا خاصا ہنگامہ برپا تھا جس سے رونق لگی رہتی تھی، مگر ایک روز جب اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی کہ ملک کے دس نمبریے غنڈوں نے اپنی انجمن قائم کی ہے تو اکثریتیں اور اقلیتیں دونوں سنسنی زدہ ہوگئیں۔ شروع شروع میں تو لوگوں نے خیال کہ بے پر کی اڑا دی ہے کسی نے۔ پر جب بعد میں اس انجمن نے اپنے اغراض و مقاصد شائع کیے اور ایک باقاعدہ منشور ترتیب دیا تو پتا چلا کہ یہ کوئی مذاق نہیں۔ غنڈے اور بدمعاش واقعی خود کو اس انجمن کے سائے تلے متحد اور منظم کرنے کا پورا پورا تہیہ کرچکے ہیں۔

اس انجمن کی ایک دو میٹنگیں ہو چکی تھیں، ان کی روداد اخباروں میں شائع ہوچکی تھی۔ لوگ پڑھتے اور دم بخود ہو جاتے۔ بعض کہتے کہ بس اب قیامت آنے میں زیادہ دیر باقی نہیں۔اغراض و مقاصد کی ایک لمبی چوڑی فہرست تھی جس میں یہ کہا گیا تھا کہ غنڈوں اور بدمعاشوں کی یہ انجمن سب سے پہلے تو اس بات پر صدائے احتجاج بلند کرے گی کہ معاشرے میں ان کو نفرت و حقارت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ وہ بھی دوسروں کی طرح بلکہ ان کے مقابلے میں کچھ زیادہ امن پسند شہری ہیں۔ ان کو غنڈے اور بدمعاش نہ کہا جائے اس لیے کہ اس سے ان کی ذلیل و توہین ہوتی ہے۔ وہ خود اپنے لیے کوئی مناسب اور معزز نام تجویز کرلیتےمگر اس خیال سےکہ اپنے منہ میاں مٹھو کی کہاوت ان پر چسپاں نہ ہو، وہ اس کا فیصلہ عوام و خواص پر چھوڑتے ہیں۔ چوری چکاری،ڈکیتی اور رہزنی، جیب تراشی اور جعل سازی، پتے بازی اور بلیک مارکیٹنگ وغیرہ، افعال قبیجہ کے بجائے فنونِ لطیفہ میں شمار ہونے چاہئیں۔ ان لطیف فنون کے ساتھ اب تک جو برا سلوک روا رکھا گیا ہے اس کی مکمل تلافی اس یونین کا نصب العین ہے۔

ایسے ہی کئی اور اغراض و مقاصد تھے جو سننے اور پڑھنے والوں کو بڑے عجیب و غریب معلوم ہوتے تھے۔ بظاہر ایسا تھا کہ چند بے فکر ظریفوں نے لوگوں کی تفریح کے لیے یہ سب باتیں گڑھی ہیں۔ یہ چٹکلہ ہی تو معلوم ہوتا تھا کہ یونین اپنے ممبروں کی قانونی حفاظت کا ذمہ لے گی اور ان کی سرگرمیوں کے لیے سازگار اور خوشگوار فضا پیدا کرنے کے لیے پوری پوری جدوجہد کرے گی۔ وہ حکامِ وقت پر زور دے گی کہ یونین کے ہر رکن پر اس کے مقام اور رتبے کے لحاظ سے مقدمہ چلایا جائے اور سزا دیتے وقت بھی اس کو پیشِ نظر رکھا جائے۔ حکومت لوگوں کو اپنے گھروں میں چوروں کا برقی الارم نہ لگانے دے اس لیے کہ بعض اوقات یہ ہلاکت خیز ثابت ہوتا ہے۔ جس طرح سیاسی قیدیوں کو جیل میں اے اور بی کلاس کی مراعات دی جاتی ہیں، اسی طرح یونین کے ممبروں کو دی جائیں۔ یونین اس بات کا بھی ذمہ لیتی تھی کہ وہ اپنے ممبروں کو ضعیف اور ناکارہ یا کسی حادثے کا شکار ہوجانے کی صورت میں ہر ماہ گزارے کے لیے معقول رقم دے گی۔ جو ممبر کسی خاص شعبے میں مہارت حاصل کرنے کے لیے باہر کے ممالک میں جانا چاہے گا اسے وظیفہ دے گی وغیرہ وغیرہ۔

ظاہر ہے کہ اخباروں میں اس یونین کے قیام پر خوب تبصرہ بازی ہوئی۔قریب قریب سب اس کے خلاف تھے۔ بعض رجعت پسند کہتے تھے کہ یہ کمیونزم کی انتہائی شکل ہے اور اس کے بانیوں کے ڈانڈے کریملن سے ملاتے تھے۔ حکومت سے چنانچہ بار بار درخواست کی جاتی کہ وہ اس فتنے کو فوراً کچل دے، کیونکہ اگر اس کو ذرا بھی پنپنے کا موقعہ دیا گیا تو معاشرے میں ایسا زہر پھیلے گا کہ اس کا تریاق ملنا مشکل ہو جائے گا۔

خیال تھا کہ ترقی پسند اس یونین کی طرف داری کریں گے کہ اس میں ایک جدت تھی اور پرانی قدروں سے ہٹ کر اس نے اپنے لیے ایک بالکل نیا راستہ تلاش کیا تھا۔ اور پھر یہ کہ رجعت پسند اسے کمیونسٹوں کی اختراع سمجھتے تھے مگر حیرت یہ کہ اقلیتوں کے یہ سب سے بڑے طرفدار پہلے تو اس معاملے میں خاموش رہے اور بعد میں دوسروں کے ہم نوا ہوگئے اور اس یونین کی بیخ کنی پر زور دینے لگے۔اخباروں میں ہنگامہ برپا ہوا تو ملک کے گوشے گوشے میں اس یونین کے قیام کے خلاف جلسے ہونے لگے۔ قریب قریب ہر پارٹی کے نامی و گرامی لیڈروں نے پلیٹ فارم پر آکر اس ننگِ تہذیب و تمدن جماعت کو ملعون قرار دیا اور کہا کہ یہی وقت ہے جب تمام لوگوں کو اپنے آپس کے جھگڑے چھوڑ کر اس فتنہ عظیم کا مقابلہ کرنے کے لیے اتحاد، نظم اور یقین محکم کو اپنا موٹو بنا کر ڈٹ جانا چاہیے۔

اس سارے ہنگامے کا جواب یونین کی طرف سے ایک پوسٹر کے ذریعے سے دیا گیا جس میں بڑے اختصار کے ساتھ یہ کہا گیا کہ پریس اکثریت کے ہاتھ میں ہے۔ قانون اس کی پشت پر ہے، مگر انجمن کے حوصلے اور ارادے پست نہیں ہوئے، وہ کوشش کررہی ہے کہ بہت سی رقم دے کرکچھ اخبار خرید لے اور ان کو اپنے حق میں کرلے۔یہ پوسٹر ملک کے درودیوار پر نمودار ہواتو فوراً بعد کئی شہروں سے بڑی بڑی چوریوں اور ڈکیتیوں کی اطلاعیں وصول ہوئیں۔ اور اس کے چند روز بعد جب ایکا ایکی دو اخباروں نے دبی زبان میں غنڈوں اور بدکاروں کی یونین کے اغراض و مقاصد میں اصلاحی پہلو کریدناشروع کیا تو لوگ سمجھ گئے کہ پس پردہ کیا ہوا ہے۔

پہلے ان دو اخباروں کی اشاعت ہونے نہ ہونے کے برابر تھی۔ نہایت ہی گھٹیا کاغذ پر چھپتے تھے۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسی کایا کلپ ہوئی کہ لوگ دنگ رہ گئے۔ سب سے اچھا ایڈیٹوریل اسٹاف ان دو پرچوں کے پاس تھا۔ دفتر میں ایک کے بجائے دو دو ٹیلی پرنٹر تھے۔ تنخواہ مقررہ وقت سے پہلے مل جاتی تھی۔ بونس الگ ملتا تھا۔ گھر کا الاؤنس، ٹانگے کا الاؤنس، سگرٹوں کا الاؤنس، چائے کا الاؤنس، مہنگائی الاؤنس۔ یہ سب الاؤنس مل کر تنخواہ سے دوگنے ہو جاتے تھے۔ جودُختِ رز کے رسیا تھے، ان کو مفت پر مٹ ملتا تھا اور بہترین ا سکاچ وسکی کنٹرولڈ قیمت پر دستیاب ہوتی تھی۔ عملے کے ہر آدمی سے باقاعدہ کنٹریکٹ کیا گیا تھا جس میں مالک کی طرف سے یہ اقرار تھا کہ اس کے گھرمیں کبھی چورئی ہوئی، یا اس کی جیب کاٹ لی گئی تو اسے نقصان کے علاوہ ہرجانہ بھی ادا کیا جائے گا۔

ان دو اخباروں کی اشاعت دیکھتے دیکھتے ہزاروں تک پہنچ گئی۔ تعجب ہے کہ پہلے جب ان کی اشاعت کچھ بھی نہیں تھی تو یہ ہر روز کثیر الاشاعت ہونے کے بلند بانگ دعوے کرتے تھے، مگر جب ان کی کایا کلپ ہوئی تو ا س معاملے میں بالکل خاموش ہوگئے۔ بیک وقت البتہ ان دونوں اخباروں نے کچھ عرصے کے بعد یہ اعلان چھاپا کہ ہماری اشاعت اس حد تک جاپہنچی ہے کہ اگر ہم نے اس سے تجاوز کیا تو تجارتی نقطہ نظر سے نقصان ہی نقصان ہے۔

ان کے علمی و ادبی اڈیشنوں میں عجیب و غریب موضوعات پر مضمون شائع ہوتے تھے، یہ چار پانچ تو بڑے ہی سنسنی خیز تھے۔

بلیک مارکیٹ کے فوائد۔۔۔ معاشیات کی روشنی میں
معاشرتی اور مجلسی دائرے میں قحبہ خانوں کی اہمیت۔

دروغ گورا حافظہ باشد۔۔۔ جدید سائنٹفک تحقیق
بچوں میں قتل وغارت گری کے فطری رجحانات۔۔۔ سیادت پر سیر حاصل تبرہ

دنیا کے خوف ناک ڈاکو اور تقدیسِ مذہب

اشتہار بھی کم عجیب و غریب نہیں تھے۔ ان میں مشتہر کا نام اور پتا نہیں ہوتا تھا۔ سرخیاں دے کر مطلب کی بات مختصر لفظوں میں ادا کردی جاتی تھی۔ چند سرخیاں ملاحظہ ہوں۔

چوری کے زیورات خریدنے سے پہلے ہمارا نشان ضرور دیکھ لیا کریں۔ جو کھرے مال کی ضمانت ہے۔

بلیک مارکیٹ میں صرف اسی فلم کے ٹکٹ فروخٹ کیے جاتے ہیں جو تفریح کا بہترین سامان پیش کرتا ہے۔

دودھ میں کن طریقوں سے ملاوٹ کی جاتی ہے۔ رسالہ دودھ کا دودھ کا پانی کا پانی مطالعہ فرمائیے۔

ٹونے،ٹوٹکے،گنڈے اور تعویذ، عملِ ہمزاد اور تسخیر محبوب کے جنتر منتر سب جھوٹے ہیں۔ خود کو دھوکا دینے کے بجائے معشوق کو دھوکا دیجیے۔

کھانے پینے کی صرف وہ چیزیں خیریدیے جن میں ضرر رساں چیزوں کی ملاوٹ نہ ہو۔ ایک الگ کالم میں ’’بلیک مارکیٹ کے آج کے بھاؤ‘‘ کے عنوان تلے ان تمام چیزوں کی کنٹرولڈ قیمت درج ہوتی تھی جو صرف بلیک مارکیٹ سے دستیاب ہوتی تھیں۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ ان قیمتوں میں ایک پائی کی بھی کمی بیشی نہیں ہوتی۔ جو چھپے چوری، چوری کا خاص نشان لگایا ہوا مال خریدتے تھے انھیں ارزاں قیمت پر سولہ آنے کھرا مال ملتا تھا۔

غنڈوں، چوروں اور بدکاروں کی انجمن جب آہستہ آہستہ نیک نامی حاصل کرنے لگی تو اربابِ بست وکشاد کی تشویش دو چند ہوگئی۔ حکومت نے اپنی طرف سے خفیہ طور پربہت کوشش کی کہ اس کے اڈے کا سراغ لگائے مگر کچھ پتہ نہ چلا۔ یونین کی تمام سرگرمیاں زیر زمین یعنی انڈر گراؤنڈ تھیں۔ اونچی سوسائٹی کے چند اراکین کا خیال تھا کہ پولیس کے بعض بدقماش افسر اس یونین سے ملے ہوئے ہیں بلکہ اس کے باقاعدہ ممبر ہیں اور ہر ماہ اپنی ناجائز ذرائع سے پیدا کی ہوئی آمدنی کا بیشتر حصہ بطور جزیے کے دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قانون کا نشتر معاشرے کے اس نہایت ہی مہلک پھوڑے تک نہیں پہنچ سکا۔۔۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ مگر یہ بات قابل غور تھی کہ عوام میں جو اس یونین کے قیام سے بے چینی پھیلی تھی اب بالکل مفقود تھی۔ متوسط طبقہ اس کی سرگرمیوں میں بڑی دلچسپی لے رہا تھا۔ صرف اونچی سوسائٹی تھی جو دن بدن خائف ہوتی جارہی تھی۔

اس یونین کے خلاف یوں تو آئے دن تقریریں ہوتی تھیں اور جگہ جگہ جلسے منعقد ہوئے تھے،مگر اب وہ پہلا سا جوش و خروش نہیں تھا۔ چنانچہ اس کو ازسرنو شدید بنانے کے لیے ٹاؤن ہال میں ایک عظیم الشان جلسے کے انعقاد کا اعلان کیا گیا۔ قریب قریب ہر شہر کی معزز ہستیوں کو نمائندگی کے لیے مدعو کیا گیا۔ مقصد اس جلسے کا یہ تھا کہ اتفاق رائے سے غنڈوں، شُہدوں اور بدکاروں کی اس یونین کے خلاف مذمت کا ووٹ پاس کیا جائے اور عوام الناس کو ان خوفناک جراثیم سے کماحقہ آگاہ کیا جائے جو اس کے وجود سے معاشرتی ومجلسی دائرے میں پھیل چکے ہیں اور بڑی سرعت سے پھیل رہے ہیں۔

جلسے کی تیاری پر ہزاروں روپے خرچ کیے گیے۔ مجلس انتظامیہ اور مجلس استقبالیہ نے مندوبین کے آرام و آسائش کے لیے ہر ممکن سہولت مہیا کی۔ کئی اجلاس ہوئے اور بڑے کامیاب رہے۔ ان کی رپورٹ یونین کے پرچوں میں من و عن شائع ہوتی رہی۔ مذمت کے جتنے ووٹ پاس ہوئے بلاتبصرہ چھپتے رہے۔ دونوں اخباروں میں ان کو نمایاں جگہ دی جاتی تھی۔

آخری اجلاس بہت اہم تھا۔ ملک کی تمام مکرم و معظم ہستیاں جمع تھیں۔ امراء و وزراء سب موجود تھے۔ حکومت کے اعلیٰ اعلیٰ افسر بھی مدعو تھے۔ بڑے زور دار الفاظ میں تقریریں ہوئیں اور مذہبی، مجلسی، معاشی، جمالیاتی اور نفسیاتی، غرض کہ ہر ممکن نقطہ نظر سے غنڈوں اور بدمعاشوں کی تنظیم کے خلاف دلائل و براہین پیش کیے گئے اور ثابت کردیاگیا کہ اس طبقہ اسفل کا وجود حیاتِ انسانی کے حق میں زہر قاتل ہے۔ مذمت کا آخری ریزولیشن جو بڑے بااثر الفاظ پر مشتمل تھا ،اتفاق رائے سے پاس ہوا تو ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔ جب تھوڑا سکون ہوا تو پچھلے بنچوں میں ایک شخص کھڑا ہوا۔ اس نے صدر سے مخاطب ہو کرکہا، ’’صاحبِ صدر، اجازت ہو تو میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

سارے ہال کی نگاہیں اس آدمی پر جم گئیں۔ صدر نے بڑی تمکنت سے پوچھا،’’میں پوچھ سکتا ہوں آپ کون ہیں؟‘‘ اس شخص نے جو بڑے سادہ مگر خوش وضع کپڑوں میں ملبوس تھا، تعظیم کے ساتھ کہا، ’’ملک وملت کا ایک ادنیٰ ترین خادم‘‘ اور کورنش بجالایا۔صدر نے چشمہ لگا کر اسے غور سے دیکھا اور پوچھا، ’’آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟‘‘ اس معما نما مرد نے مسکرا کر کہا، ’’کہ۔۔۔ ہم بھی منہ میں زبان رکھتے ہیں۔‘‘ اس پر سارے ہال میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔ ڈائس پر خصوصاً سب کے سب معززین اور قائدین سوالیہ نشان بن کر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔

صدر نے اپنی تمکنت کو ذرا اور تمکین بنا کر پوچھا، ’’آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟‘‘

’’میں ابھی عرض کرتا ہوں۔‘‘یہ کہہ کر اس نے جیب سے ایک بے داغ سفید رومال نکالا۔ اپنا منہ صاف کیا اور اسے واپس جیب میں رکھ کربڑے پارلیمانی انداز میں گویا ہوا،’’صاحب صدر اور معزز حضرات۔۔۔‘‘ ڈائس کے ایک طرف دیکھ کر وہ رک گیا، ’’معافی کا طلب گار ہوں۔۔۔ محترمہ بیگم مرزبان خلافِ معمول آج پچھلے صوفے پر تشریف فرما ہیں۔۔۔ صاحب صدر، خاتون مکرم اور معزز حضرات!‘‘

بیگم مرزبان نے دے نیسٹی بیگ میں سے آئینہ نکال کر اپنا میک اپ دیکھا اور غور سے سننے لگی۔ باقی بھی ہمہ تن گوش تھے۔

’’حریفِ مطلب مشکل نہیں فسونِ نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز‘‘

کچھ دیر رک کر وہ ایک ادا سے مسکرایا۔ ’’حضرت غالب۔۔۔!اس اجلاس میں اور اس سے پہلے مجلسی دائرے کے ایک مفروضہ طبقہ اسفل کے بارے میں جو زہر فشانی کی گئی ہے، آپ کے اس خاکسار نے بڑے غور سے سنی ہے۔‘‘ سارے ہال میں کُھسر پھسر ہونے لگی۔ صدر کی ناک کے بانسے پر چشمہ پھسل گیا، ’’آپ ہیں کون؟‘‘سر کے ایک ہلکے سے خم کے ساتھ اس شخص نے جواب دیا،’’ ملک و ملت کا ایک ادنیٰ خادم۔۔۔ مجلسی دائرے کے مفروضہ طبقہ اسفل کی جماعت کا ایک رکن جسے اس کی نمائندگی کا فخر حاصل ہے!‘‘

ہال میں کسی نے زور سے ’’واہ‘‘ کہا اور تالی بجائی۔ چوروں، اچکوں اور غنڈوں کی یونین کے نمائندے نے سر کو پھر ہلکی سی جنبش دی اور کہنا شروع کیا،’’ کیا عرض کروں۔ کچھ کہا نہیں جاتا۔

واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہوگئیں

اس اجلاس میں اس جماعت کے خلاف جس کا یہ خاکسار نمائندہ ہے اس قدر گالیاں دی گئی ہیں، اس قدر لعنت ملامت کی گئی ہے کہ صرف اتنا کہنے کو جی چاہتا ہے لو وہ بھی کہتے ہیں یہ بے ننگ و نام ہے۔‘‘

صاحبِ صدر، محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات!

بیگم مرزبان کی لپ اسٹک مسکرائی۔ بولنے والے نے آنکھیں اور سر جھکا کر تسلیم عرض کیا، ’’محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ یہاں میری جماعت کا کوئی ہمدرد موجود نہیں۔ آپ میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو ہمارا طرف دار ہو۔

دوست گر کوئی نہیں ہے جو کرے چارہ گری
نہ سہی ایک تمنائے دوا ہے تو سہی۔‘‘

ڈائس پر ایک اچکن پوش رئیس گلے میں پان دبا کر بولے، ’’مکرر!‘‘

صدر نے جب ان کی طرف سرزنش بھری نظروں سے دیکھا تو وہ خاموش ہوگئے۔

چوروں اور بدکاروں کی یونین کے نمائندے کے پتلے پتلے ہونٹوں پر شفاف مسکراہٹ نمودار ہوئی،’’میں اپنی مختصریر تقریر میں جو شعر بھی استعمال کروں گا۔۔۔ حضرت غالب کا ہوگا!‘‘

بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن سے کہا، ’’آپ تو بڑے لائق معلوم ہوتے ہیں۔‘‘بولنے والا کورنش بجایا لیا اور مسکرا کر کہنے لگا،

’’سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے!‘‘

سارا ہال قہقوں اور تالیوں سے گونج اٹھا۔ بیگم مرزبان نے اٹھ کر صدر کے کان میں کچھ کہا جس نے حاضرین کو چپ رہنے کا حکم دیا۔ خاموشی ہوئی تو چوروں اور لفنگوں کی یونین کے نمائندے پھر بولنا شروع کیا،’’صاحب صدر، محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات!

گرچہ ہے کس کس برائی سے دلے باایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

لیکن سچ پوچھیے تو اس سے تسلی نہیں ہوتی۔ میں تاسف کا اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ اس طبقے کے ساتھ جس کی نمائندگی میری جماعت کرتی ہے نہایت بے انصافی ہوئی ہے۔ اس کو اب تک بالکل غلط رنگ میں دیکھا جاتا رہا ہے اور یہی کوشش کی جاتی رہی کہ اسے ملعون و مطعون قرار دے کر خارج از سماج کردیا جائے۔ میں ان مطہر ہستیوں کو کیا کہوں جنہوں نے اس شریف اور معزز طبقے کو سنگسار کرنے کے لیے پتھر اٹھائے ہیں

آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے
اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے۔

صدر نے دفعتاً گرج کر کہا، ’’خاموش۔۔۔ بس اب آپ کو مزید بولنے کی اجازت نہیں ہے۔‘‘مقرر نے مسکرا کر کہا،’’حضرت غالب کی اسی غزل کا ایک شعر ہے،

دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستم گر
کچھ تجھ کو مزا بھی مرے آزار میں آوے

ہال تالیوں کے شور سے گونج اٹھا۔ صدر نے اجلاس برخاست کرنا چاہا مگر لوگوں نے کہا کہ نہیں چوروں اور غنڈوں کی یونین کے نمائندے کی تقریر ختم ہو جائے تو کارروائی بند کی جائے۔ صدر اور دوسرے اراکین اجلاس نے پہلے آمادگی ظاہر نہ کی لیکن بعد میں رائے عامہ کے سامنے انھیں جھکنا پڑا۔ مقرر کو بولنے کی اجازت مل گئی۔

اس نے صاحب صدر کا مناسب و موزوں الفاظ میں شکریہ ادا کیا اورکہنا شروع کیا،’’ہماری یونین کو صرف اس لیے نفرت و تحقیر کی نظر سے دیکھا جاتا ہے کہ یہ چوروں، اٹھائی گیروں، رہزنوں اور ڈاکوؤں کی انجمن ہے جو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قائم کی گئی ہے۔ میں آپ لوگوں کے جذبات بخوبی سمجھتا ہوں۔ آپ کا فوری رد عمل کس قسم کا تھا ، میں اس کا تصور بھی کرسکتا ہوں، مگر چوروں، ڈاکوؤں اور رہزنوں کے حقو ق کیا نہیں ہوتے؟ یا نہیں ہوسکتے؟ میں سمجھتا ہوں کوئی سلیم الدماغ آدمی ایسا نہیں سوچ سکتا۔۔۔ جس طرح سب سے پہلے انسان ہیں، بعد میں سیٹھ ہیں، رئیس اعظم ہیں، میونسپل کمشنر ہیں، وزیر داخلہ ہیں یا خارجہ۔ اسی طرح وہ بھی سب سے پہلے آپ ہی کی طرح انسان ہے۔ چور، ڈاکو، اٹھائی گیرا، جیب کترا اور بلیک مارکیٹر بعد میں ہے۔ جو حقوق دوسرے انسانوں کو اس سقفِ نیلوفری کے نیچے مہیا ہیں، وہ اسے بھی مہیا اور ہونے چاہئیں۔ جن نعمتوں سے دوسرے انسان متمتع ہوتے ہیں ان سے وہ بھی مستفیض ہونے کا حق رکھتا ہے۔

میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک چور یا ڈاکو کیوں شے لطیف سے خالی سمجھا جاتا ہے۔ کیوں اسے ایک ایسا شخص متصور کیا جاتا ہے جو معمولی حسیات سے بھی عاری ہے۔۔۔ معاف فرمائیے وہ اچھا شعر سن کر اسی طرح پھڑک اٹھتا ہے جس طرح کوئی دوسرا سخن فہم۔ صبحِ بناس اور شامِ اودھ سے صرف آپ ہی لطف اندوز نہیں ہوتے۔ وہ بھی ہوتا ہے۔ سرتال کی اس کو بھی خبر ہے۔ وہ صرف پولیس کے ہاتھوں ہی گرفتار ہونا نہیں جانتا۔ کسی حسینہ کے دامِ الفت میں گرفتار ہونے کا سلیقہ بھی جانتا ہے۔ شادی کرتا ہے، بچے پیدا کرتا ہے۔ ان کو چوری سے منع کرتا ہے۔ جھوٹ بولنے سے روکتا ہے۔۔۔خدانخواستہ اگر ان میں سے کوئی مر جائے تو اس کے دل کو بھی صدمہ پہنچتا ہے۔ ‘‘یہ کہتے ہوئے اس کی آواز کسی قدر گلورگیر ہوگئی۔ لیکن فوراً ہی اس نے رخ بدلا اور مسکراتے ہوئے کہا،’’ حضرت غالب کے اس شعر کا جو مزا وہ لے سکتا ہے، معاف کیجیے آپ میں سے کوئی بھی نہیں لے سکتا۔

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا

رہا کھٹکا نہ چوری کا، دعا دیتا ہوں رہزن کو!‘‘

سارا ہال شگفتہ ہو کر ہنسنے لگا۔ بیگم مرزبان بھی جو تقریر کے آخری حصے پر کچھ افسردہ سی ہوگئی تھیں مسکرائیں، مقرر نے اسی طرح پتلی پتلی شفاف مسکراہٹ کے ساتھ کہنا شروع کیا، ’’مگر اب ایسے دعا دینے والے کہاں!‘‘ بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن کے ساتھ آہ بھر کر کہا، ’’اور وہ رہزن بھی کہاں؟‘‘

مقرر نے تسلیم کیا، ’’آپ نے بجا ارشاد فرمایا بیگم مرزبان۔ ہمیں اس افسوس ناک حقیقت کا کامل احساس ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے مل کر اپنی انجمن بنا ڈالی ہے۔ مرور زمانہ کے ساتھ رہزن، چور اور جیب کترے قریب قریب سب اپنی پرانی روش اور وضع داری بھول گئے ہیں۔ لیکن مقام مسرت ہے کہ وہ اب بہت تیزی سے اپنے اصل مقام کی طرف لوٹ رہے ہیں۔۔۔ لیکن میں ان حضرات سے جو ان غریبوں کی بیخ کنی میں مصروف ہیں یہ گستاخانہ سوال کرنا چاہتا ہوں کہ اپنی اصلاح کے لیے اب تک انھوں نے کیا کیا ہے۔ مجھے کہنا تو نہیں چاہیے مگر تقابل کے لیے کہنا پڑتا ہے کہ ہمیں نہایت ذلیل، چوری اور سفاک ڈاکو کہا جاتا ہے، مگر وہ لوگ کیا ہیں۔۔۔ کچھ اس عالت مرتبت ڈ ائس پر بھی بیٹھے ہیں جو عوام کا مال و متاع دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں۔‘‘

ہال میں ’’شیم شیم‘‘ کے نعرے بلند ہوئے۔

مقرر نے کچھ توقف کے بعد کہنا شروع کیا۔’’ہم چور ی کرتے ہیں، ڈاکے ڈالتے ہیں، مگر اسے کوئی اور نام نہیں دیتے۔ یہ معزز ہستیاں بدترین قسم کی ڈاکہ زنی کرتی ہیں مگر یہ جائز سمجھتی ہے۔ اپنی آنکھ کے اس طویل و عریض اور بھاری بھر کم شہتیرکو کوئی نہیں دیکھتا اور نہ دیکھنا چاہتا ہے۔۔۔ کیوں۔۔۔؟ یہ بڑا گستاخ سوال ہے۔ میں اس کا جواب سننا چاہتا ہوں چاہے وہ اس سے بھی زیادہ گستاخ ہو۔۔۔‘‘ تھوڑے توقف کے بعد وہ مسکرایا،’’وزیر صاحبان اپنی مسندِ و زارت کی سان پر اُسترا تیز کرکے ملک کی ہر روز حجامت کرتے رہیں۔یہ کوئی جرم نہیں، لیکن کسی کی جیب سے بڑی صفائی کے ساتھ بٹوہ چرانے والا قابل تعزیر ہے۔۔۔ تعزیر کو چھوڑیئے مجھے اس پر کوئی زیادہ اعتراض نہیں۔۔۔ وہ آپ کی نظروں میں گردن زدنی ہے۔‘‘

ڈائس پربہت سے حضرات بے چینی اور اضطراب محسوس کرنے لگے۔۔۔ بیگم مرزبان مسرور تھیں۔

مقرر نے اپنا گلا صاف کیا، پھر کہنا شروع کیا، ’’تمام محکموں میں اوپر سے لے کر نیچے تک رشوت ستانی کا سلسلہ قائم ہے، یہ کسے معلوم نہیں۔ کیا یہ بھی کوئی راز ہے جس کے انکشاف کی ضرورت ہے کہ خویش پروری اور کنبہ نوازی کی بدولت سخت نااہل، خردماغ اور بدقماش بڑے بڑے عہدے سنبھالے بیٹھے ہیں۔ معاف فرمائیے گا ادھر ہمارے طبقے میں ایسے افسوس ناک حالات موجود نہیں۔ کوئی چور اپنے کسی عزیز کو بڑی چوری کے لیے منتخب کرےگا۔ ہمارے ہاں لوگ اس قسم کی رعائتوں سے فائدہ اٹھانا بھی چاہیں تو نہیں اٹھا سکتے۔ اس لیے کہ چوری کرنے، جیب کاٹنے یا ڈاکہ ڈالنے کے لیے دل گردے اور مہارت و قابلیت کی ضرورت ہے۔ یہاں کوئی سفارش کام نہیں آتی۔ ہر شخص کا کام ہی خود اس کا امتحان ہے جو اس کو فوراً نتیجے سے باخبر کردیتا ہے۔‘‘

ہال میں سب خاموش تھے اور بڑے غور سے تقریر سن رہے تھے۔ تھوڑے سے وقفے کے بعد مقرر کی آواز پھر بلند ہوئی،’’میں بدکاری معاف کرسکتا ہوں۔ لیکن خام کاری ہرگز ہرگز معاف نہیں کرسکتا۔۔۔ وہ لوگ یقیناً قابل مواخذہ ہیں جو نہایت ہی بھونڈے طریقے پر ملک کی دولت کو لوٹتے ہیں۔ ایسے بھونڈے طریقے پر کہ ان کے کرتوتوں کے بھانڈے ہر دوسرے روز چوراہوں میں پھوٹتے ہیں۔ وہ پکڑے جاتے ہیں مگر بچ نکلتے ہیں کہ ان کے نام دس نمبر کے بستہ الف میں درج ہیں نہ بستہ ب میں۔۔۔ یہ کس قدر ناانصافی ہے۔۔۔ میں تو سمجھتا ہوں بیچارے انصاف کا۔۔۔ اندھے انصاف کا خون یہیں پر ہوتا ہے۔۔۔ نہیں۔۔۔ ایسے اور بھی کئی مقتل ہیں۔ جہاں انصاف، انسانیت، شرافت و نجابت، تقدیس و طہارت، دین و نیا، سب کو ایک پھندے میں ڈال کر ہر روز پھانسی دی جاتی ہے۔۔۔ میں پوچھتا ہوں انسانوں کی خام کھالوں کی تجارت کرنے والے ہم ہیں یا آپ۔۔۔ میں سوال کرتا ہوں، از منہ عتیق کی بربریت کی طرف امن پسند انسانوں کو کشاں کشاں کھینچ کر لے جانے والے ہم ہیں یا آپ۔۔۔ اور استفسار کرتا ہوں کہ دوسری اجناس کی طرح ملاوٹ کرکے اپنے ایمان کو آپ بیچتے ہیں یا ہم؟‘‘

ہال پر قبر کی سی خاموشی طاری تھی۔ مقرر نے جیب سے اپنا سفید رومال نکال کر منہ صاف کیا اور اسے ہوا میں لہرا کر کہا،’’صاحب صدر، خاتون مکرم اور معزز حضرات! مجھے معاف فرمائیے کہ میں ذرا جذبات کی رو میں بہہ گیا۔۔۔ عرض ہے کہ جدھر نظر اٹھائی جائے۔ ایمان فروش ہوتا ہے یا ضمیر فروش، وطن فروش ہوتا یا ہے ملت فروش۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ بھی کوئی فروخت کرنے کی چیزیں ہیں۔ انسان تو انھیں نہایت ہی مشکل وقت میں ایک لمحے کے لیے گروی نہیں رکھ سکتا۔ مگر میں انسانوں کی بات کررہا ہوں۔ معاف کیجیے۔ میرے لہجے میں پھر تلخی پیدا ہوگئی

رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی سے معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے۔

یہ کہتا وہ ڈائس کی طرف بڑھا، ’’صاحب صدر، محترم بیگم مرزبان اور معزز حضرات! میں اپنی یونین کی طرف سے آپ کا سب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ نے مجھے لب کشائی کا موقعہ دیا۔‘‘ ڈائس کے پاس پہنچ کر اس نے صدر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔’’ میں اب ایک دوست کی حیثیت سے رخصت چاہتا ہوں۔‘‘

صدر نے ہچکچاتے ہوئے اٹھ کر اس سے ہاتھ ملایا۔ اس کے بعد اس نے بیگم مرزبان کی طرف ہاتھ بڑھایا، ’’اگر آپ کو کوئی اعتراض نہ ہو۔۔۔‘‘

بیگم مرزبان نے بڑے بھولپن سے اپنا ہاتھ پیش کردیا۔ باقی معززین اور رؤسا سے ہاتھ ملا کر جب فارغ ہوا تو خدا حافظ کہہ کر چلنے لگا۔ لیکن فوراً ہی رک گیا۔ اپنی دونوں جیبوں سے اس نے بہت سی چیزیں نکالیں اور صدرکی میز پر ایک ایک کرکے رکھ دیں۔ پھر وہ مسکرایا، ’’ایک عرصے سے جیب تراشی چھوڑ چکا ہوں آج کل سیف توڑنا میرا پیشہ ہے۔۔۔ آج صرف ازراہِ تفریح آپ لوگوں کی جیبوں پر ہاتھ صاف کردیا۔‘‘ یہ کہہ کر وہ بیگم مرزبان سے مخاطب ہوا، ’’خاتون مکرم معاف کیجیے۔ آپ کے وینسیٹی بیگ سے بھی میں نے ایک چیز نکالی تھی۔ مگر وہ ایسی ہے کہ سب کے سامنے آپ کو واپس نہیں کرسکتا۔‘‘

اور وہ تیزی کے ساتھ ہال سے باہر نکل گیا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.