جہان آباد

319512جہان آبادناصر نذیر فراق دہلوی

جواب کا ہے کو تھا لاجواب تھی دہلیمگر خیال سے دیکھا تو خواب تھی دہلیایک روز امیر تیمور صاحبقران اپنے مرکب پر سوار دارالسلطنت بخارا کی گلی کوچوں میں چکر لگا رہا تھا۔ جمعدار رکاب تھامے ساتھ تھا اور امیر پوچھتا جاتا تھا کہ اس گلی کا کیا نام ہے۔ اس کوچہ کو کیا کہتے ہیں۔ یہ کون سا محلہ ہے۔ جمعدار جواب دیتا تھا۔ یہ پستہ شکن محلہ ہے۔ یہ گلی سرا جوں کی کہلاتی ہے۔ یہ کوچہ روشن آباد ہے۔ جو چلتے چلتے ایک تنگ کوچہ میں پہنچا، اور اس نے یہ دیکھا کہ بانسوں کے پھاٹک کے آگے چند نوجوان ایک دری کے فرش کو چاروں طرف سے پکڑے جھاڑ رہے ہیں اور دھول اڑ رہی ہے۔ امیر نے پوچھا جمعدار یہ کیا جگہ ہے۔ جمعدار نے کہا حضور یہ کوچہ حضرت سید خواجہ بہاؤالدین نقشبند کا ہے۔ یہ بانسوں کے پھاٹک والی آپ کی خانقاہ ہے۔ اس میں آپ تشریف فرما ہیں۔ مرید خانقاہ کی شطرنجی کو جھاڑ رہے ہیں۔ امیر کو دیکھ کر نوجوانوں نے شطرنجی جھاڑنے سے اپنے ہاتھ روک لئے تھے اور امیر ان لوگوں کے پاس پہنچ گیا تھا۔امیر (نوجوان سے) تم ہمارا اصلاً لحاظ نہ کرو۔ شطرنجی بدستور جھاڑے جاؤ۔آپ جانتے ہیں مرید اور طالب علم الڑ ہوتے ہیں۔ نوجوانوں نے دری کو اس زور سے پٹخارا کہ دھول کے مارے امیر کا ساز ویراق اور امیر کا چہرہ تاج گھوڑا وغیرہ سب اٹ گئے۔ امیر نے اڑتی ہوئی دھول کو دونوں ہاتھوں سے اپنے منھ پر مل کر کہا، ’’غبار المدینۃ شفاء‘‘ اور گھوڑے کو مہمیز کیا اور یہ جاوہ جا۔مریدوں نے خانقاہ میں آکر امیر کا سارا حال حضرت کی خدمت میں عرض کیا۔ حضرت خواجہ سید بہاؤ الدین نقشبند نے کہا، لڑکو! کیا کہتے ہو کہ امیر تیمور ہماری درگاہ کی خاک منہ پر مل گیا۔ یہ کیوں نہیں کہتے کہ امیر اپنی عاقبت سنوار گیا۔ الٰہی اس ترک نے جس طرح تیرے رسولؐ کی ذریات کا ادب کیا ہے، اسی طرح اس کے بدلے میں اس کا نام شرق سے غرب تک، شمال سے جنوب تک روشن کر دے۔ اس کی اولاد در اولاد کو پشتوں تک سلطنت بخش دے۔ چنانچہ امیر تیمور سے میران شاہ سلطان ابو سعید میرزا، سلطان محمدمرزا، عمر شیخ میرزا بابر ہمایوں، اکبر جہاں گیر، شاہجہاں تک گیارہویں سلطنت تھی۔شاہجہاں کو تعمیر کا دلی شوق تھا۔ نئی دلی بسانے کی تدبیر شروع کی۔ لال قلعہ اور اس کی اندرونی عمارتوں، اور جامع مسجد اور نئے شہر کے نقشے بنوائے گئے۔ شہنشاہ نقشوں میں بذات خاص اصلاح دیتے تھے۔ میر عمارت نے ہر مکان، ہر محل کی لاگت کا تخمینہ تیار کیا اور ملکوں ملکوں سے سنگ مرمر، سنگ سرخ، سنگ سیاہ، سنگ باسی اور ہزار ہزار قسم کا مصالحہ اور سامان آنے لگا۔ میر عمارت نے چنیا اینٹ کا پیمانہ ایک ٹھیکے دار کو دے کر کہا، ایسی اینٹ تیار کرو، مگر اینٹ کچی نہ رہے۔ لاکھوری ہو۔ بادشاہی کام ہے، دھیان سے کرنا۔ ٹھیکے دار نے کہا پیشگی نقد دلوائیے۔ میر عمارت نے لاکھ روپیہ کی چٹھی لکھ دی۔ خزانہ سے فوراً روپیہ پٹ گیا اور ٹھیکے دار کام میں مشغول ہو گیا۔ اینٹوں کا پزادہ چڑھ گیا۔ کچھ مدت بعد میر عمارت کے پاس ٹھیکے دار بسورتا ہوا آیا، اور کہنے لگا، میں تو برباد ہو گیا۔ پزادوں کی آنچ تیز ہو گئی۔ اینٹوں کا کھنگر بن کر رہ گیا۔ بادشاہ اس بندہ کا زن بچہ کولہو میں پلوا دے گا۔ اس لئے میں بھاگتا ہوں۔ دیکھئے یہ کھنگر ہے۔میر عمارت گھبرانے کی کیا بات ہے۔ اور قلم اٹھاکر اس نے ایک عرضی لکھ کر بادشاہ کے حضور میں بھیجی کہ لال قلعہ اور جو شاہی عمارتیں دریا کے کنارے بنائی جائیں گی، ان کی بنیادوں میں بجائے سنگ خارہ کے کھنگر بھرا جائےگا۔ کیونکہ کھنگر پانی کو خوب جذب کرتا ہے، اور بنیاد مضبوط رہتی ہے اور بنیاد کی مضبوطی کے ساتھ اوپر کی عمارت کا مضبوط ہونا شرط ہے۔ کھنگر کا نمونہ ملاحظہ کے لئے بھیجتا ہوں۔ لاگت اس پر دوگنی آتی ہے۔ منظوری دی جائے۔ جواب آیا کہ کھنگر کا بنوانا مناسب ہے۔ دوگنی لاگت منظورما بدولت ہے۔ میر عمارت نے کہا ٹھیکے دار! ایک لاکھ پہلے کھنگر کے نقصان کا لو اور اب لاکھ کے بدلے دو لاکھ لیتے رہو، اور نرا کھنگر پکاتے رہو۔ میر عمارت کی یہ عنایت اور بادشاہ کی یہ پرورش دیکھ کر ٹھیکے دار خوش ہوگیا اور دل سے کام کرنے لگا۔جب لال قلعہ کی نیو رکھنے لگے تو بڑے بڑے لوہے کے کڑھاؤ اور تانبہ کی ناندوں میں چربی کھولائی جاتی تھی اور پھلکیوں کی طرح اس میں کوری اینٹیں ڈالی جاتی تھیں اور اینٹیں جب خوب چربی پی لیتی تھیں تو نکال کر ٹھنڈی کی جاتی تھیں اور گچ کے ساتھ بنیاد میں رکھی جاتی تھیں۔ گچ میں سفیدی، نارنول کے پتھر، ماش کا آٹا، مردار سنگ، گوڑ، السی کا تیل، سن مقرض ڈال کر بیل گری کا پانی چھان کر دیا جاتا تھا۔ یہ ادنی قسم کا مصالحہ تھا اور بڑھیا مصالحوں کی تفصیل کے لئے دفتر درکار ہیں۔سفیدی جو درو دیوار پر لگا کر مہرہ کی جاتی تھی وہ احمد آباد، گجرات کے ایڈر نام پہاڑ کی کان سے آتی تھی۔ اس سفیدی کا یہ خاصہ تھا کہ جب اس کی گھوٹائی کی جاتی تھی تو بلا مبالغہ چمک دمک میں حلبی آئینہ بن جاتی تھی اور اس کے اندر آنکھوں کا سرمہ دکھائی دیتا تھا۔ دو سو برس تک آبدار رہتی تھی۔ لال قلعہ اور اس کے اندرونی مکان، قصر و ایوان بن رہے تھے۔ تخت طاؤسی کے لئے جواہر تراشے جاتے تھے۔ جنگل میں منگل تھا۔ ہزاروں مزدور، معمار، کاریگر خیموں میں، چھولداریوں میں، جھونپڑیوں میں پڑے تھے۔ دور دور کے پہاڑوں سے چھکڑوں میں پتھر لدے چلے آتے تھے۔ ایک چھکڑے میں سو سو پچاس پچاس بیل جوتے جاتے تھے۔ سنگ تراشوں کی چھینیوں اور ٹانکیوں کی دھڑا دھڑ سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ ہر سو قدم کے فاصلہ پر ایک خیمہ خزانہ کا برپا تھا۔ ایک ہندو خزانچی اور تین محرر۔ دس سپاہی روپیہ کی حفاظت کے لئے حاضر رہتے تھے۔روپیہ، اٹھنیاں، چونیاں، دونیاں، پیسے اور کوڑیاں رکھی رہتی تھیں۔ کام امانی میں زیادہ اور ٹھیکہ میں کم ہوتا تھا۔ شام کے چار بجے روزانہ چٹھ بٹ جاتا تھا۔ غریبوں کا پیسہ واجب الادا مل جاتا تھا۔ لال قلعہ کے لاہوری دروازہ سے شہر کے فرضی لاہوری دروازہ تک اردو بازار ٹیٹوں اور جھونپڑیوں کی دوکانوں میں لگا دیا گیا تھا۔ جس میں جو، گیہوں، جوار، باجرہ کے آٹے سے لے کر قسم قسم کی جنس، کپڑا، ترکاری، کابل و کشمیر کے میوے تک ملتے تھے۔ آگرہ سے حکم پر حکم چلا آتا تھا کہ اردو بازار میں ہر شے کی دوکانیں اضافہ ہوتی رہیں تاکہ غیر ملکوں کے کاریگر اپنا دیس چھوڑ کر پردیسی بنے ہیں، وہ تکلیف نہ پائیں اور اپنے وطن کی اشیاء اور غذا انہیں میسر ہو۔شہر کا نقشہ بناکر اس کے حصہ حصہ کر دیے گئے اور شاہجہاں نے ان حصوں کو اپنی اولاد پر بانٹ دیا تھا اور فرما دیا تھا کہ لاگت سب خزانہ سے ملے گی، اپنے اپنے حصہ میں عمدہ عمدہ مکانات اورمحل بنوالو تاکہ نیا شہر اچھی اچھی عمارتوں سے آراستہ ہوکر آبادی کی صورت پکڑے۔ چنانچہ دکن کا حصہ اورنگ زیب کے اہتمام سے زیبائش پانے لگا۔ کشمیر ی دروازہ کے قطع کو دارا شکوہ نے فلک شکوہ قصر و ایوان سے سنوارا۔ چاندنی چوک کے ٹکڑے کو جہاں آرا بیگم کے غلام نے جو ناتواں تخلص کرتا، باغ اور گلشن اور حماموں سے رشک فردوس بنایا۔ نٹوں کا کوچہ اسی ناتواں کی یادگار ہے۔ جامع مسجد کی تعمیر نواب سعد اللہ خاں وزیر کو سپرد تھی اور اس کی نیویں بھری گئی تھیں، جو وہ انجینئر جس کی سپردگی میں جامع مسجد کا نقشہ تھا یکا یک مع نقشہ کے غائب ہو گیا اور مسجد کی تعمیر کا کام اینڈ ہوکر رہ گیا۔اس امر کی خبر پاکر شہنشاہ ناخوش ہوئے۔ حکم صادر ہوا کہ جو شخص اس کافرمنش مسلمان کو جس نے خانہ خدا کی تیاری میں روڑا اٹکایا ہے، پکڑ کر لائےگا تو اسے اس قدر انعام دیا جائےگا، مگر وہ خدا کا بندہ ایسا الوپ ہوا کہ تین برس تک کسی نے اس کی جھلک بھی نہ پائی۔ تین سال بعد وہ یکایک دربار شاہی میں حاضر ہو گیا۔ حضور والا نے فرمایا، ’’کمبخت یہ حرکت کیا تھی؟‘‘ اس نے ہاتھ باندھ کر کہا جامع مسجد کی عمارت بہت بھاری ہوگی۔ نئی بنیاد پر ایسی اونچی عمارت کا لے جانا خطرہ سے خالی نہ تھا۔ برسات کا پانی نیو میں مرتا اور اس کے درو دیوار نیچے کھسکتے اور ڈاٹیں، کمانیں، محرابیں، جھک جاتیں۔ سرکار کے لاکھوں روپے پر پانی پھر جاتا اور میری آبرو کے ساتھ ساتھ جان بھی جاتی۔ نیک نیتی اور مصلحت سے فدوی روپوش ہو گیا تھا۔ تین برساتیں کھاکر نیو لوہا لاٹ ہو گئی ہے۔ اب جو کچھ عمارت کھڑی ہوگی، صدیوں تک کھڑی رہے گی۔ حضور کو اختیار ہے کہ فدوی کی جاں بخشی ہو یا سزا دی جائے۔بادشاہ نے انجینئر کے عذر کو غور سے سن کر اس کی خطا معاف فرمائی اور خلعت سے سرفراز کیا اور جامع مسجد نواب سعد اللہ خاں صاحب کے اہتمام سے تیار ہونے لگی، جو نواب صاحب کو قولنج ہوا اور وہ جنت کو سدھارے۔ بہر حال جامع مسجد اور لال قلعہ اور شہر بن گیا۔ حضور والا نے دیوان خاص میں تخت طاؤسی پر جلوہ افروز ہوکر جشن ماہتابی منایا اور ایک فرمان جاری فرمایا۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ فخر البلاد جہان آباد عرف شاہجہاں آباد میں جو رعایا آباد کی گئی ہے اس میں خوشحال کم اوراہل حاجت زیادہ ہیں۔ پھر ان میں کاروباری ہیں، مزدور ہیں، بیمار ہیں، عورتیں ہیں، پردہ نشین جو برقعہ اوڑھ کر بھی باہر نہیں نکلتی ہیں اور بغیر سودے سلف کے کام نہیں چلتا ہے۔ اس واسطے میں حکم دیتا ہوں کہ ترکاری فروش، گوشت فروش، میوہ فروش، پارچہ فروش، کسیرہ، گندی، تانبے کے برتنفروش، موچی، مٹی کے مٹکے، ٹھلیاں، صراحیاں، بیچنے والے، اوپلہ ایندھن بیچنے والے، سادہ کار، چاندی سونے کے زیور بیچنے والے، حلوائی، بساطی، اپنے اپنے سامان خوانچوں میں لگا کر گٹھریوں میں کندھے پر رکھ کر، بہنگیوں میں کہاروں کے کندھے پر لاد کر گلی گلی، کوچہ کوچہ، محلہ محلہ پھریں اور اپنی اپنی جنس کا نام لے کر آواز لگائیں۔بزاز کہے، ’’نینو، لٹھ، ڈوریہ، ململ۔‘‘ مچھلی والا، ’’مچھلی دریاؤ کی، لو مچھ۔‘‘ کھٹ بنے، بڑھئی، لوہار، اپنے اپنے پیشہ کا نام لے کر پکاریں۔ یہاں تک کہ موری دہانے والے پکار کر کہیں، ’’مہری دھلوالیجئے‘‘ ۔ تاکہ گھر بیٹھے اہل حاجت کی ضرورت ر فع ہوجائے۔ چونکہ اس حکم تازہ کی تعمیل مشکل سے پیشہ ور کریں گے، اس لئے کوتوالی کے برق انداز لوگوں کے ساتھ رہیں اور شہر میں گشت کروائیں۔ تاکہ گاہک اور سودا بیچنے والے اس طور کے لین دین کے عادی ہوجائیں اور بیچنے والوں کو نفع اور مول لینے والوں کو بازار جانا نہ پڑے، اور ہر قسم کی چیزیں اپنے دروازہ پر لے لیں۔ جیسی نیت ویسی برکت۔ شاہجہاں بادشاہ کی یہ تدبیر ایسی راست آئی کہ آج اس اجڑے دیار میں لینے والی بیٹی کا سارا جہیز اپنے گھر کے دروازہ پر کواڑ کی آڑ میں کھڑی ہوکر مول لے لیتی ہے۔شاہجہاں کے بعد سلطنت درجہ بدرجہ منتقل ہوتی ہوئی محمد شاہ رنگیلے تک پہنچی۔ اور لال قلعہ کا دیوان خاص عیش و نشاط کے سامانوں سے فردوس بریں بن گیا۔ معتمد الملک سید ہاشم علوی خاں، حکیم رنگینی ذوق کے مددگار تھے۔ ان کے حکم سے شتر خانہ بادشاہی میں گرمی، جاڑہ، برسات دو سو اونٹ بدمست رکھے جاتے تھے اور ان کے کانوں کے پیچھے کی مستی دوا کے کام میں آتی تھی۔ میر شکار جنگلی کبوتروں کے بیس انڈے تازہ بتازہ اور بارہ انڈے چڑیا کے پیش کرتا تھا۔ کیونکہ دونوں چیزیں مقوی ہیں۔ شراب پانی کی طرح لنڈھائی جاتی تھی۔ ایک رات محمد شاہ نشہ کے سرور میں اس درگاہ کے اندرمع جوتیوں کے گھس گئے، جس میں حضور رسالت پناہ اور بزرگوں کے تبرکات امیر تیمور کے عہد سے جمع کئے گئے تھے۔ یہ درگاہ لال قلعہ میں ہی تھی۔ اس بے ادبی اور گستاخی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سلطنت کا زوال شروع ہوا۔ نادر شاہ آیا او رلال قلعہ کو اور شاہجہاں آباد کو اجاڑ کر چل دیا اور بقول مومن،حسن روز افزوں پہ غرہ کس لئے اے ماہ رویونہی گھٹتا جائےگا جتنا کہ بڑھتا جائےگا مغلیہ سلطنت گھٹتے گھٹتے اور سکڑتے سکڑتے لال قلعہ کی چار دیواری میں ٹھٹھر کر رہ گئی۔ دانا یان فرنگ کی تدبیر و شمشیر سے کوئی راجہ، کوئی حاکم، کوئی رئیس، کوئی نواب عہدہ برآنہ ہو سکا۔ شاہ عالم بادشاہ نے فرنگیوں کو بٹیا بنالیا۔ ان کی دی ہوئی پنشن کواللہ آمین کر کے قبول کر لیا۔ کیونکہ مرتا کیا نہ کرتا؟ جان بچی لاکھوں پائے۔ ایک شاہ عالم بادشاہ کے دل میں فرنگیوں نے گھر نہیں کرلیا تھا بلکہ ہندوستانی عموماً انہیں اچھا جاننے لگے تھے اور ان کی سپاہ اور شاہراہ اورتنخواہ کی بچہ بچہ کی زبان پر تعریف تھی۔ یعنی فرنگیوں کی فوج جرار ہوتی ہے۔ دس ہزار پر ایک ہزار بھاری ہوتی ہے۔شاہراہ یعنی کلکتہ سے جہاں تک ان کی حکومت پہنچتی ہے، پکی سڑک اور سڑک کے ساتھ ساتھ ریل اور ڈاک بھی اڑی چلی جاتی ہے اور تین تین دن میں خط پتر ملک کے اس سرے سے اس سرے تک پہنچا دیتی ہے۔ تنخواہ کی تعریف یہ ہے کہ جسے نوکر رکھتے ہیں، اس کا درمایہ یا طلب یا وظیفہ بے قیل و قال، بے چوں و چرا پہلی کی پہلی کو دیتے ہیں۔ راجہ مہاراجہ، نوابوں اور بادشاہوں کی سرکار سے نوکر کی تنخواہ تین تین برس نہیں ملتی تھی اور نوکر کا گھرانہ کا گھرانہ فاقہ کر کے برباد ہو جاتا تھا۔(۲)ابو نصر معین الدین اکبر ثانی جب بیٹے کی منت پوری کرنے اور پھول والوں کی سیر منانے مہرولی حاضر ہوئے تھے تو عجب سماں تھا۔ برکھا رات، ساون کامہینہ، بادشاہی خیمہ مخملی باناتی اطلسی سبز سرخ زرد ریشمی کلابتونی سوتی طنابوں سے جکڑے ہوئے کھڑے تھے۔ ان کے سنہری کلس اور شمسے سورج میں چمک رہے تھے۔ اوپر نیلا آسمان، نیچے زمین پر سبزہ کا فرش اور خیموں کا سلسلہ اور جابجاپانی میں ان کا عکس طلسمات کا عالم پیدا کر رہا تھا۔ بادشاہی خیمہ سے لے کر حضرت قطب صاحب بندہ نواز کی درگاہ شریف تک جہاں مستورات جا سکتی ہیں، دور و یہ قنات کھڑی تھی کیونکہ ملکہ دوراں میرزا جہانگیر کو لے کر منت ادا کرنے کے لئے درگاہ میں حاضر ہوں گی۔ تیاری تو صبح سے ہو رہی تھی مگر دن کے تین بجے ظل سبحانی نے کہا پنکھا چڑھانے کا وقت آ گیا۔بس ملکہ دوراں نے پچاس خوان اندر سے اندرسہ کی گولیوں اور پھینیوں کے آراستہ کئے۔ ایک چاندی کی کشتی میں سونے کا پنکھا جس میں پنہ، پکھراج، نیلم، یاقوت اور سچے موتی جڑے تھے، جس کی بالشت بھر نیچی جھالر کو بیگم نے جو ہی کی کلیوں سے خود گوندھا تھا، مرزا جہانگیر کو دولھا بناکر سہرا پھولوں کا، بدھی طرہ عطر میں بسا کر، اس کے سر پر بندھوا کر وہ کشتی صاحب عالم کے سر پر بسم اللہ کہہ کر بیگم نے رکھی اور بادشاہ زادہ کی بلائیں لے کر کہا، ’’اماں میرا منہ نہ تھا کہ تو فرنگیوں کے چنگل سے نکل کر شاہجہاں آباد آئے اور میں تجھے دیکھوں۔ یہ سب حضرت کا صدقہ ہے۔ جان من منت کی کشتی سنبھال کر اور سرادب نیاز سے سر جھکا کر درگاہ کو چلو۔ آؤ۔غلاف شریف کی سینی بادشاہ نے اپنے سر پر اور صندل دان، عطر دان بیگم نے اپنے سر پر اور مٹھائی کے خوان بادشاہ زادوں نے اپنے سروں پر رکھ کر سب نے مل جل کر آستانہ پاک کی راہ لی۔ بیگمیں، بادشاہ زادیاں تُلواں جوڑے پہنے تھیں۔ گوکھرو کے جال کے سلمہ ستارہ، کلابتون کے تمامی، زرمی بونٹی، زر بفت کمخواب، زری گاچھ، اطلس دلدائی، بابرنیٹ۔ بنارس، گجرات، سورت، احمدآباد شریف، لاہور کے شاہی کارخانوں کے ریشمی اور زرین کپڑوں کے لباس پہن کر آراستہ ہو رہی تھیں۔ لاکھوں روپیہ کا جڑاؤ گہنا ہاتھ گلے میں تھا۔ پور پور نار نول کی مہندی رچی ہوئی تھی، ڈھیلے پائنچوں کو دو لونڈیاں اٹھائے چلتی تھیں، تو دو باندیاں پیچھے دوپٹہ کو سنبھالے چلتی تھیں۔ آگے آگے روشن چوکی اور نفیری بجانے والیاں سب عورتیں تھیں۔ بیگموں کے جھانجن، چوڑیوں اور پازیب کی جھنکار سے زندہ اور مردوں کے دل کانپتے تھے۔ قنات در قنات یہ سب درگاہ شریف میں پہنچے۔ باجے گاجے سب آستانے کے باہر ہی تھما دیے گئے۔ ملکہ جہاں اور سب عورتیں فرخ سیر والی جالیوں تک پہنچ کر رک گئیں۔اگرچہ ساری درگاہ کا زنانہ ہو رہا تھا، مگر عورتوں کے لئے ہمیشہ سے یہی حد ادب ہے۔ بادشاہ اور مرزا صاحب اور سب مرد مزار شریف پر گئے۔ اور پہلے غلاف پھر صندل چڑھایا، اور اوپر سے عطر لگایا۔ پنج آیت پڑھی گئی۔ شیرینی تقسیم ہوئی۔ نقد نذرانہ جھری میں بھر دیا گیا۔ بادشاہ زادوں کو قدم بوس کرایا۔ اور سب حاجتی دعا کر کے قنات کے اندر پلٹ کر سرا پردہ شاہی میں داخل ہوئے۔ رات کے کھانے کے بعدمحل سرا میں ناچ گانا ہونے لگا۔ صحن میں کھم گڑے تھے۔ نو عمر بادشاہ زادیاں جھولے میں بیٹھیں اور گائینیں انہیں جھلانے اور یہ غزل گانے لگیں،غزلمیری دل کی کنجی میر ی جان جھولامیری آرزو میرا ارمان جھولانہ جھولو بہت بیگما جان جھولاکہ دیتا ہے آخر کو نقصان جھولاکروں کیوں نہ آؤ بھگت اس کی دل سےبرس دن میں آیا ہے مہمان جھولاجو دیتی ہے جھونٹے کوئی لمبے لمبےاوڑاتا ہے کیا میرے اوسان جھولایہ برسات کے پانچ تحفے ہیں بیگمگھٹا، پھینیاں، آم، پکوان، جھولادوا تیری لڑکی بڑی بے حیا ہےنہیں چھوڑتی ہے کسی آن جھولارہے جاکے برسات میں قطب صاحباگر جھولنا چاہے انسان جھولایہ موٹا یہ کھدی یہ میلا کچیلاکہاں سے اٹھا لایا در بان جھولاخدا کے لئے آج پھر وہ سنا دوجو گایا تھا کل تم نے بی جان جھولاہوا ختم ساون لگا آج بھادوںجھولاؤگی کب تم چچی جان جھولااگرچاوڑی یا دریبہ کو جائیںمجھے لاکے دیں بھائی سلطان جھولابلایا ہے سمدھن کو جھولا جھلانےبنے گا نہ کیونکر پرستان جھولاکنول دل کا کھل جائے ہو روح تازہجھولائیں جو ملکہ خوش الحان جھولاپھڑکتی ہے جب دیکھ لیتی ہے اس کوکروں اپنی بچی پہ قربان جھولایہ بہنوں سے میری ملاتا ہے مجھ کوبڑا مجھ پہ کرتا ہے احسان جھولاتھکی جاتی ہوں میں تو پڑھتے ہی پڑھتےیہ ہے گیت یا کوئی دیوان جھولا اک ادا ہے یہ ہندوستان کینہ کیوں جھولیں ہندو مسلمان جھولاپھول والوں کی سیر سے فارغ ہوکر بادشاہ شاہجہاں آباد تشریف لائے اور جشن کا حکم دیا اور فرمایا کہ جشن سے پندرہ دن پہلے تورہ بندی کی جائے۔ یہ رسم دلی سے مٹ گئی۔ اور نئی تانتی نے تورہ کا نام بھی کم سنا ہے۔ اس لئے فقیر فراق تورہ کے معنی عرض کرتا ہے۔ تورہ ترکی زبان میں قانون یا آئین کو کہتے ہیں۔ اس واسطے دہلی میں محاورہ بنا۔ ’’شرع تورہ۔‘‘ یعنی شریعت اور قانون دونوں ایک بات مگر عورتیں اپنی بول چال میں طنز کے طور پر تورہ غرور اور غصے کے معنی میں استعمال کرتی ہیں۔ مثلاً، ’’اللہ رے عورت ترا تورہ۔‘‘ بوا یہ اپنا تورہ کسی اور کو دکھانا۔ تورہ بیٹی۔دوسرے ترکی زبان میں تورہ کے معنی کھانے کے خوان کے ہیں۔ اور توران میں اس کھانے کے خوانوں کو کہتے ہیں، جو شادی بیاہ سے کچھ دن پہلے بطور حصہ بخرہ کے بھائی بندوں، عزیزوں دوستوں کے گھر بھجوائے جاتے ہیں۔ مغل بادشاہ ہندوستان میں فرماں روا ہوئے تو ان کے ساتھ تورہ چنگیزی بھی آیا۔ بیاہ شادی سے دو ہفتہ پہلے تورہ بن گئے نام بنام، تاکہ عین تاریخ پر تقریب میں ہلّڑ نہ ہو اور عزیزوں کو شکایت کا موقع نہ ملے کہ ہم بھوکے رہے یا دسترخوان پر نہ بٹھایا، یا ہم دسترخوان پر بیٹھے تو تھے مگر فلاں کھانا فلاں شے ہمارے آگے نہ تھی۔ ہماری توہین کی گئی۔ اس لئے تورہ کے کھانوں کی فہرست لکھ کر کنبہ خاندان میں بھیج دی جاتی تھی۔ اس کے مطابق لینے والے تورہ لے لیں۔ایک گھر کے دس تورہ ہیں، تو وہ دسوں تورہ ایک دن میں لے سکتے ہیں۔ اور دل چاہے تو دس دن میں لے لیں۔ پھر تورہ کی قیمت بھی تشخیص کر دی جاتی تھی۔ چاہے لینے والے نقدی لیں۔ ایک منشی مع دوات قلم کے اور پانچ خادموں کے توروں کے ساتھ ہو لیتا۔ ایک تھیلی روپیہ کی بھی اس کے ہمراہ ہوتی تھی، اس کے ذمہ پچاس تورہ ایک دن میں تقسیم کے لئے ہوتے۔ رسید لے لیتا تھا، تورہ دے دیتا تھا۔ جو نقد لینا چاہتا اسے نقد دیتا تھا۔ ہر تورہ ایک کہاری کی بہنگی میں ہوتا تھا۔ تورہ جو ادنیٰ قسم کا ہوتا اس کی قیمت پانچ روپیہ ہوتی تھی، تورہ کا کھانا مٹی کے لاکھی برتنوں میں عموماً ہوتا تھا۔ تورہ کے کھانوں کی تفصیل یہ تھی۔ ایک لکڑی کے خوان میں سب سے نیچے،(۱) باقرخانیاں ڈھائی سیر پختہ کی دو عدد(۲) قورمہ کے دو پیالہ۔ ہر پیالہ میں کم سے کم آدھ سیر قورمہ(۳) کباب شامی ۵ عدد(۴) بریانی دو طباق(۵) متبخن دو طباق(۶) فیرینی دو پیالہ۔ ہر پیالہ میں آدھ سیر(۷) مربہ آم وغیرہ کا ایک پیالی میں(۸) اچار کسی قسم کا ایک پیالی(۹) دہی آدھ سیر۔ ایک پیالہ(۱۰) گاؤ زبان۔ دو عدد(۱۱) گاؤ ویدہ۔ دو عد(۱۲) نان تنور یعنی آبی روٹی دو سیر کی چار عددیہ سب کھانے مانڈوں سے ڈھکے ہوتے تھے۔ مانڈہ اس باریک اور روغنی چپاتی کا نام ہے جو شب برات کو پکتی ہے۔ ایک مثل بھی مانڈوں کے متعلق مشہور ہے۔ مردہ دوزخ میں جائے یا بہشت میں، انہیں اپنے حلوے مانڈے سے کام ہے۔ یہ معمولی تورہ ہے۔ ورنہ بادشاہوں کے تورہ ہزار نعمتوں کے سونے چاندی اور چینی کے برتنوں میں بھی ہوتے تھے۔ اس رسم کو بادشاہوں سے دلی والوں نے بھی سیکھ لیا تھا۔ اور شہر میں بھی تورہ بندی ہوتی تھی۔ مگر غدر ۱۸۵۷ کے کچھ دن بعد سے موقوف ہے۔ اب تو پارٹی کی گرما گرمی ہے۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.