جہاں تیغ ہمت علم دیکھتے ہیں
جہاں تیغ ہمت علم دیکھتے ہیں
محالات کا سر قلم دیکھتے ہیں
جو بیٹھے تھے یاں پا بدامان ہستی
انہیں سر بہ حیب عدم دیکھتے ہیں
کمالات صانع پہ جن کی نظر ہے
وہ خوبی مصنوع کم دیکھتے ہیں
نہیں مبتلا جو تن آسانیوں میں
انہیں دم بدم تازہ دم دیکھتے ہیں
نہیں جن کو جاہ و حشم کا تکبر
وہی لطف جاہ و حشم دیکھتے ہیں
شکم پروری جن کا شیوہ ہے ان کو
اسیر جفائے شکم دیکھتے ہیں
بس اے رنگ و بو تو نہ کر ناز بیجا
خدا جانے کیا بات ہم دیکھتے ہیں
اڑاتے ہیں جو رخش ہمت کو سرپٹ
وہ منزل کو زیر قدم دیکھتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |