جہاں میں ابھی یوں تو کیا کیا نہ ہوگا
جہاں میں ابھی یوں تو کیا کیا نہ ہوگا
زمیں پر کوئی تم سا پیدا نہ ہوگا
شراب محبت کو اے زاہدو تم
برا گر کہو گے تو اچھا نہ ہوگا
سر بزم دشنام دشمن کو دے کر
مجھے تم نے کیا دل میں کوسا نہ ہوگا
مری بے قراری کو کیا دیکھتے ہو
کبھی برق کو تم نے دیکھا نہ ہوگا
نسیمؔ اور کچھ فکر کیجے خدارا
اب اس نوکری میں گزارا نہ ہوگا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |