جہاں کو وہ لب مے گوں خراب رکھتے ہیں
جہاں کو وہ لب مے گوں خراب رکھتے ہیں
خدا خبر کہ یہ کیسی شراب رکھتے ہیں
اک آب و تاب مہ و آفتاب رکھتے ہیں
پہ روکشی کی تری کب وہ تاب رکھتے ہیں
زہے خساست اہل جہاں کہ مثل گہر
گرہ میں باندھ کے دریا میں آب رکھتے ہیں
کس اعتبار پہ دیجے بتاں کو دل کہ بزور
جو کچھ کہ لیں ہیں کسی سے یہ داب رکھتے ہیں
زبان عشق شکایت سے لال ہے ورنہ
ہم اک گلہ کے ترے سو جواب رکھتے ہیں
نہ لٹ دھوئیں کی ہے ایسی نہ زلف سنبل کی
جو بال سر کے ترے پیچ و تاب رکھتے ہیں
حباب و بحر میں حاجب وجود ہی ہے ہم آہ
ملیں کب اس سے یہ جب تک حجاب رکھتے ہیں
لیا ہے ہم نے بھی بوسہ دیا ہے اس کو جو دل
یہ سچ ہے دوست دلوں میں حساب رکھتے ہیں
نہ کیوں ازار کی مہری ہی شیخ جی سی لیں
سریں جو بہر وضو داب داب رکھتے ہیں
نہ جانے جاتے ہیں جوں شعلہ ہم کدھر قائمؔ
کہ ہر دم ایک نیا اضطراب رکھتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |