جہاں کہ ہے جرم ایک نگاہ کرنا

جہاں کہ ہے جرم ایک نگاہ کرنا
by آرزو لکھنوی

جہاں کہ ہے جرم ایک نگاہ کرنا
وہیں ہے گنہ پہ ڈٹ کے گناہ کرنا

بتوں سے بڑھا کے میل نباہ کرنا
جہاں کے سفید کو ہے سیاہ کرنا

سکھایا ہے مجھ کو اس مری بے کسی نے
اسی کو ستم کا اس کے گواہ کرنا

لبھانے سے دل کے تھا تو یہ مدعا تھا
غریب کی زندگی کو تباہ کرنا

یہی تو ہے ہاں یہی وہ ادائے معصوم
الگ ہوئی جو سکھا کے گناہ کرنا

جفا سے بھی لیں مزہ نہ وفا کا کیوں کر
ہمیں تو ہر اک طرح ہے نباہ کرنا

یہ کہتا ہے چشم ہوش ربا کا جادو
تجھے ترے ہاتھ سے ہے تباہ کرنا

تری نظر سے سیکھا ہے آہ دل نے
جگر میں شگاف ڈال کے راہ کرنا

نظر میں نظر گڑائے ہے یوں وہ ظالم
کہ آرزوؔ اب کٹھن ہے اک آہ کرنا

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse