جہاں ہے قد اس کا جلوہ فرما تو سرو واں کس حساب میں ہے

جہاں ہے قد اس کا جلوہ فرما تو سرو واں کس حساب میں ہے
by نظیر اکبر آبادی

جہاں ہے قد اس کا جلوہ فرما تو سرو واں کس حساب میں ہے
وہ قامت ایسا ہے کچھ قیامت قیامت اس کی رکاب میں ہے

یہ سب غلط ہے جو یوں ہیں کہتے کہ اس کا مکھڑا نقاب میں ہے
نقاب کیا ہے وہ شرمگیں تو نقاب سے بھی حجاب میں ہے

وہ گورا پنڈا اور اس میں سرخی مگر خدا نے لے سر سے تا پا
کیا ہے میدا تو موتیوں کا اور اس کو گوندھا شہاب میں ہے

جھپک جو مکھڑے کی دیکھی اس کے تو ہم نے اپنے یہ دل میں جانا
انہی کے پرتو سے مہ ہے روشن اسی کا نور آفتاب میں ہے

رہے گا محبوب جس مکاں میں تو واں ہی دیکھیں گے اس کو جا کر
غرض وہ جس کا کہ نام دل ہے یہ دھن اس عالی جناب میں ہے

جو غصہ ہو کر وہ دیوے گالی تو اس ادا سے کہ ہم تو کیا ہیں
فرشتے غش ہو کے لوٹ جاویں یہ لطف اس کے عتاب میں ہے

بندھا ہے جب سے خیال اس کا عجب طرح کی لگن لگی ہے
کبھی وہ دل میں کبھی وہ جی میں کبھی وہ چشم پر آب میں ہے

وہی ادھر ہے وہی ادھر ہے وہی زباں پر وہی نظر میں
جو جاگتا ہوں تو دھیان میں ہے جو سو گیا ہوں تو خواب میں ہے

نظیرؔ سیکھے سے علم رسمی بشر کی ہوتی ہیں چار آنکھیں
پڑھے سے جس کے ہوں لاکھ آنکھیں وہ علم دل کی کتاب میں ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse