جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز

جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز
by الطاف حسین حالی
294107جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگزالطاف حسین حالی

جیتے جی موت کے تم منہ میں نہ جانا ہرگز
دوستو دل نہ لگانا نہ لگانا ہرگز

عشق بھی تاک میں بیٹھا ہے نظر بازوں کی
دیکھنا شیر سے آنکھیں نہ لڑانا ہرگز

ہاتھ ملنے نہ ہوں پیری میں اگر حسرت سے
تو جوانی میں نہ یہ روگ بسانا ہرگز

جتنے رستے تھے ترے ہو گئے ویراں اے عشق
آ کے ویرانوں میں اب گھر نہ بسانا ہرگز

کوچ سب کر گئے دلی سے ترے قدر شناس
قدر یاں رہ کے اب اپنی نہ گنوانا ہرگز

تذکرہ دہلی مرحوم کا اے دوست نہ چھیڑ
نہ سنا جائے گا ہم سے یہ فسانہ ہرگز

ڈھونڈتا ہے دل شوریدہ بہانے مطرب
دردانگیز غزل کوئی نہ گانا ہرگز

صحبتیں اگلی مصور ہمیں یاد آئیں گی
کوئی دلچسپ مرقع نہ دکھانا ہرگز

لے کے داغ آئے گا سینے پہ بہت اے سیاح
دیکھ اس شہر کے کھنڈروں میں نہ جانا ہرگز

چپے چپے پہ ہیں یاں گوہر یکتا تہ خاک
دفن ہوگا کہیں اتنا نہ خزانہ ہرگز

مٹ گئے تیرے مٹانے کے نشاں بھی اب تو
اے فلک اس سے زیادہ نہ مٹانا ہرگز

وہ تو بھولے تھے ہمیں ہم بھی انہیں بھول گئے
ایسا بدلا ہے نہ بدلے گا زمانہ ہرگز

ہم کو گر تو نے رلایا تو رلایا اے چرخ
ہم پہ غیروں کو تو ظالم نہ ہنسانا ہرگز

آخری دور میں بھی تجھ کو قسم ہے ساقی
بھر کے اک جام نہ پیاسوں کو پلانا ہرگز

بخت سوئے ہیں بہت جاگ کے اے دور زماں
نہ ابھی نیند کے ماتوں کو جگانا ہرگز

کبھی اے علم و ہنر گھر تھا تمہارا دلی
ہم کو بھولے ہو تو گھر بھول نہ جانا ہرگز

شاعری مر چکی اب زندہ نہ ہوگی یارو
یاد کر کر کے اسے جی نہ کڑھانا ہرگز

غالبؔ و شیفتہؔ و نیرؔ و آزردہؔ و ذوقؔ
اب دکھائے گا یہ شکلیں نہ زمانا ہرگز

مومنؔ و علویؔ و صہبائیؔ و ممنوںؔ کے بعد
شعر کا نام نہ لے گا کوئی دانا ہرگز

کر دیا مر کے یگانوں نے یگانہ ہم کو
ورنہ یاں کوئی نہ تھا ہم میں یگانہ ہرگز

داغؔ و مجروحؔ کو سن لو کہ پھر اس گلشن میں
نہ سنے گا کوئی بلبل کا ترانہ ہرگز

رات آخر ہوئی اور بزم ہوئی زیر و زبر
اب نہ دیکھوگے کبھی لطف شبانہ ہرگز

بزم ماتم تو نہیں بزم سخن ہے حالیؔ
یاں مناسب نہیں رو رو کے رلانا ہرگز


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.