جی میں چہلیں تھیں جو کچھ سو تو گئیں یار کے ساتھ

جی میں چہلیں تھیں جو کچھ سو تو گئیں یار کے ساتھ
by قائم چاندپوری

جی میں چہلیں تھیں جو کچھ سو تو گئیں یار کے ساتھ
سر پٹکنا ہی پڑا اب در و دیوار کے ساتھ

اک ہمیں خار تھے آنکھوں میں سبھوں کی سو چلے
بلبلو خوش رہو اب تم گل و گلزار کے ساتھ

خار مردود چمن مجھ کو کیا روز ازل
جن نے بھیجا ہے تجھے گونۂ گلزار کے ساتھ

میں دوانا ہوں صدا کا مجھے مت قید کرو
جی نکل جائے گا زنجیر کی جھنکار کے ساتھ

یارو کہتے تھے جو تم لالہ و گل ہے سو کہاں
سر پٹکنے تو نہ آیا تھا میں کہسار کے ساتھ

ہائے صیاد یہ انصاف سے تیرے ہے بعید
یاں تلک کیجے ستم اپنے گرفتار کے ساتھ

گرچہ بلبل ہوں میں قائمؔ ولے اس باغ کے بیچ
فرق کوئی نہ کرے گل کو جہاں خار کے ساتھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse