جی چاہا جدھر چھوڑ دیا تیر ادا کو
جی چاہا جدھر چھوڑ دیا تیر ادا کو
چٹکی میں اڑائے ہوئے پھرتے ہیں قضا کو
سجدوں کا بھی موقع نہ رہا اہل وفا کو
پھر پھر کے مٹاتے ہیں وہ نقش کف پا کو
جب پاتے ہیں سر دھنتے ہی پاتے ہیں رساؔ کو
سمجھائے کہاں تک کوئی اس مرد خدا کو
یوں ہم نے چھپائی ہے ترے وصل کی حسرت
جس طرح چھپاتا ہے خطاوار خطا کو
اب چھوڑ رساؔ عشق بتاں دیکھ کہا مان
کمبخت تجھے منہ بھی دکھانا ہے خدا کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |