حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
دل جوش گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی
اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغ نا تمامی
کرتے ہو شکوہ کس کا تم اور بے وفائی
سر پیٹتے ہیں اپنا ہم اور نیک نامی
صد رنگ گل کترنا در پردہ قتل کرنا
تیغ ادا نہیں ہے پابند بے نیامی
طرف سخن نہیں ہے مجھ سے خدا نہ کردہ
ہے نامہ بر کو اس سے دعوائے ہم کلامی
طاقت فسانۂ باد اندیشہ شعلہ ایجاد
اے غم ہنوز آتش اے دل ہنوز خامی
ہر چند عمر گزری آزردگی میں لیکن
ہے شرح شوق کو بھی جوں شکوہ ناتمامی
ہے یاس میں اسدؔ کو ساقی سے بھی فراغت
دریا سے خشک گزرے مستوں کی تشنہ کامی
This work was published before January 1, 1930, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |