حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی

حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
by مرزا غالب
300508حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامیمرزا غالب

حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
دل جوش گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی

اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھا دے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغ نا تمامی

کرتے ہو شکوہ کس کا تم اور بے وفائی
سر پیٹتے ہیں اپنا ہم اور نیک نامی

صد رنگ گل کترنا در پردہ قتل کرنا
تیغ ادا نہیں ہے پابند بے نیامی

طرف سخن نہیں ہے مجھ سے خدا نہ کردہ
ہے نامہ بر کو اس سے دعوائے ہم کلامی

طاقت فسانۂ باد اندیشہ شعلہ ایجاد
اے غم ہنوز آتش اے دل ہنوز خامی

ہر چند عمر گزری آزردگی میں لیکن
ہے شرح شوق کو بھی جوں شکوہ ناتمامی

ہے یاس میں اسدؔ کو ساقی سے بھی فراغت
دریا سے خشک گزرے مستوں کی تشنہ کامی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse