حالی و شبلی کی معاصرانہ چشمک

حالی و شبلی کی معاصرانہ چشمک
by مہدی افادی
319484حالی و شبلی کی معاصرانہ چشمکمہدی افادی

جدت موضوع چاہتی تھی کہ جہاں تک ہماری آخری بزم کا تعلق ہے اس لپیٹ میں کوئی چھوٹنے نہ پائے، لیکن افسوس ہے مواد ترکیبی کی کمی نے زیادہ پھیلنے کا موقع نہ دیا اور گو ’’چشمک‘‘ کا دائرہ اطلاقی خالص حالی و شبلی کی شوخیٔ قلم سے آگے نہیں بڑھا لیکن ضمناً اوروں کا انداز طبیعت (کیرکٹر) بھی دکھاؤں گا اور بکھرے ہوئے موتیوں کو جہاں جہاں سے ہاتھ آئیں گے، سلسلۂ بیان میں پروتا جاؤں گا۔

سرسید کی ’’بزم ادب‘‘ بچے کھچے پرانے لائق پرستش بزرگوں کا گویا نچوڑ تھی لیکن جس طرح خیمہ کے ساتھ طنابیں بھی اکھڑ جاتی ہیں، ان کے رفقاء بھی ایک ایک کرکے آگے پیچھے ہم سے رخصت ہوتے گئے۔ ان کی نکتہ سنجیاں اور روشن خیالیاں، بوڑھے غمزے اور لطائف وظرائف، قدیم اسلامی سوسائی کے تبرکات تھے جن سے ہم ہمیشہ کے لئے ہاتھ دھو بیٹھے اور اب ان اصحاب کی تعداد بھی کم ہورہی ہے، جنھوں نے جما جمایا نقشہ یعنی پچھلے پہر کا خواب اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ان میں ہرفرد اپنے اپنے دائرہ کا مالک تھا اور مستقل ہستی رکھتا تھا۔ آج ’’وقار الملک‘‘ اور ’’محسن الملک‘‘ کی یادگار میں چند سطریں بھی کوئی لکھنے والا نظر نہیں آتا اور ’’رجال العصر‘‘ کے سلسلہ میں ان کی ضمنی کھپت ان کا بہترین حق ہے جو ہمارے ہاتھوں ان کو مل سکتا ہے۔ میں یہاں ان دونوں لائق افراد کی زندگی کا وہ رخ دکھانا نہیں چاہتا جس کے لحاظ سے کبھی یہ سالار جنگ اعظم کے نفس ناطقہ بنے ہوئے تھے، نہ محسن الملک کے اس کارنامہ کو یاد دلانا چاہتا ہوں جب ان کے قیام لندن میں وزیر انگلستان کو اعتراف کرنا پڑا کہ ہندوستان میں اتنا بڑا عالی دماغ موجود ہے۔ اسی طرح دونوں صاحبوں کی سیاسی اور قومی خدمات بھی میرے موضوع کے لئے حیثیت اضافی رکھتی ہیں لیکن یہ بات بھولنے کے لائق نہیں ہے کہ جہاں تک سر سید کی ادبی تبلیغ کا تعلق ہے، یہ دونوں گویا ان کے دست و بازو تھے۔سرسید کے ساتھ ’’محسن الملک‘‘ کی نوک جھونک، ادبی راز و نیاز جس کا ایک خاکہ مراسلات دلچسپ میں دکھایا گیا ہے اور جس کے عالمانہ اور سخن گسترانہ شواہد ’’مرحوم تہذیب الاخلاق‘‘ کے سیزدہ سالہ فائل میں بہ کثرت ملیں گے، فتوحات ادب کا بہترین سرمایہ ہیں، جن پر مستقلاً اظہار خیال کی ضرورت ہے۔ میرے موضوع کے صفحات محدود ہیں، ان کے پھیلانے کی گنجائش نہیں، یہاں صرف چشم سخن کے اشارے پر قناعت کرنی ہوگی۔بہرحال کس کس کو یاد کروں، محسن الملک، وقار الملک، چراغ علی، ذکاء اللہ، نذیر احمد، حالی وشبلی وغیرہ وغیرہ، سجی سجائی محفل تھی جو دیکھتے دیکھتے درہم برہم ہو گئی۔ ’’سرسید کی بزم ادب‘‘ایسا وسیع موضوع ہے کہ اگر مولوی وحید الدین سلیم نے اپنی عمر ضائع نہ کی ہوتی اور سرسید اور ان کے رفقاء کے ساتھ جو وابستگی ان کو رہی ہے اور جس کے ’’آثار معارف‘‘ کے نقش اول میں بہ افراط موجود ہیں، وہ افسانۂ یاران کہن کی حیثیت سے ایک ضخیم الاوراق اور نہایت دلچسپ کتاب تیار کرسکتے تھے، اگر یہ صحیح ہے کہ کسی شخص کی اخلاقی فوقیت کا راز دراصل اس پاکیزہ سوسائٹی میں مضمر ہوتا ہے تو ’’سیر الصحابہ‘‘ کی طرح علی گڈھ کی یہ آخر ی بزم ادب ہمارے لئے وقت کی چیز اور نتیجہ خیز رہتی۔خیر! ان تصریحات کے بعد اصل موضوع کی طرف لوٹئے۔ سرسید نے ہمیشہ معاصرین ادب کی حوصلہ افزائی کی۔ ان کی بااثر شخصیت خاموش تصرف کے ساتھ دوسروں کی قلب ماہیت کرتی رہتی تھی۔ شبلی نے ’’مولویت‘‘ علی گڈھ میں پہنچ کر چھوڑی۔ ان کے خیالات کی کایا پلٹ، مذاق تصنیف اور وسیع النظری، غرض یہ جو کچھ ہوئے، سر سید کے دامن تربیت کا اثر تھا۔ شبلی نے المامون کا دوسرا ایڈیشن جب شائع کیا ہے تو سرسید نے جس خلوص کے ساتھ اس پر دیباچہ لکھا، وہ آج بھی ان کی شرافت ادبی کا پتہ دیتا ہے، اسی طرح حالیؔ کی نیچرل شاعری خیالات کے لحاظ سے سرسید کے فیض صحبت کی ممنون ہے۔ ابھی یہ فیصلہ باقی ہے کہ حالیؔ کی روش جدید نے پروفیسر آزاد کی ڈالی ہوئی داغ بیل یعنی ان کے نتائج فکر سے کہاں تک فائدہ اٹھایا، جن کو تاریخی حیثیت سے کم سے کم اولیت کا شرف حاصل ہے۔ مختصر یہ کہ متاخرین ادب کے ساتھ سرسید کا درجۂ متناسبہ صرف مربیانہ تھا، اسی لئے ایسی باوقار ہستی سے چشمک تو خیر اس کی کسرات بھی بہ مشکل ہاتھ آئیں گی۔پروفیسر آزاد اس قدر بلند خیال اور استادانہ دل و دماغ رکھتے تھے کہ ان کے ہاں بھی جہاں تک معاصرین کا تعلق ہے ’’چشمک‘‘ کا گذر نہیں ۔ ایک واقعۂ دلچسپ اہل ذوق کی ضیافت طبع کے لئے لکھتا ہوں۔ لاہور میں پہلی دفعہ جب ایجوکیشنل کانفرنس کا جلسہ ہوا تو پروفیسر آزاد زندہ تھے، گو دماغ کسی حد تک متاثر ہو چکا تھا، نذیر احمد ملنے کے لئے گئے، حالی اور غالباً شبلی بھی ساتھ تھے، نذیر احمد کا لکچر ہونے والا تھا جو چھپا ہوا ان کے ہاتھ میں تھا۔ آزاد رسالہ کی طرف متوجہ ہوئے تو نذیر احمد نے یہ کہہ کر آگے بڑھا دیا کہ ایک نظر دیکھ لیجئے، کانفرنس میں پیش کرنا ہے۔ آزاد فوراً قلم سنبھال کر بیٹھ گئے اور کانٹ چھانٹ شروع کردی۔ ندیر احمد، آزاد کی اس بے تکلفی سے اس قدر متاثر ہوئے کہ جوش محبت سے آنکھیں نم ہو گئیں ۔ ان کو قدرتی طور پر یہ خیال آیا کہ ابھی ان کے دائرہ میں ایک شخص ایسا موجود ہے جو ایک ’’بوڑھے‘‘ بچہ کی مشق سخن پر نظر ثانی کر سکتا ہے۔حالیؔ بھی آزاد کی استادی کا لوہا مانتے تھے، ان کی مخلصانہ عقیدت کیشی کے لئے وہ تقریظ و تنقید دیکھئے جو آب حیات اور نیرنگ خیال پر حالی نے لکھی ہے اور جس پر ضمناً یہ طے کردیا ہے کہ نیچرل شاعری دراصل آزاد کی صنعت فکر کا نقش اولین اور ان کی اولیات میں محسوب ہونے کے لائق ہے۔ حالیؔ لکھتے ہیں،’’نظم و نثر میں بہت کچھ لکھا گیا اور لکھا جا رہا ہے۔ یعنی لٹریچر کے رقبہ کا طول و عرض بڑھ گیا ہے، لیکن اس کا ارتفاع جہاں تھا وہیں رہا۔ یعنی اخلاقی سطح بہت اونچی نہیں ہوئی لیکن آزاد کی پاکیزہ خیالی اور خوش بیانی نے یہ کمی پوری کر دی۔ ’نیرنگ خیال‘ کی بہت کچھ داد دی ہے کیونکہ آزاد کے قلم نے پہلے پہل جذبات انسانی کی تجسیم و تشخیص کی اور معقولات کی تصویریں محسوسات کی شکلوں میں کھینچی ہیں اور خصائل انسانی کے فطری خواص ایسے مؤثر اور دلکش پیرایہ میں بیان کئے ہیں، جن سے اردو لٹریچر اب تک خالی تھا۔‘‘شبلی بھی آزاد کا ادب کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے آزاد اردوئے معلیٰ کا ہیرو ہے، اس کو کسی اور سہارے کی ضرورت نہیں، وہ اصلی معنوں میں ایک زبردست انشا پرداز ہے، تاہم ایک ہلکی سی چشمک لیجئے۔ہندوستان کے سب سے بڑے انشا پرداز نے نیرنگ خیال میں جہاں کی یہ تصویر کھینچی ہے، ’’اس کے بعد ایک اور بادشاہ آیا جو اپنی وضع سے ہندو راجہ معلوم ہوتا تھا، وہ خود نشہ میں چور تھا، ایک عورت صاحب کمال (نور جہاں) اس کا ہاتھ پکڑے آتی تھی اور جدھر چاہتی تھی پھراتی تھی۔ وہ جو کچھ دیکھتا اس کے نور جمال سے دیکھتا تھا اور جو کچھ کہتا تھا اس کی زبان سے کہتا تھا۔ اس پر ہاتھ میں ایک فرد کاغذوں کا تھا اور ان پر قلم دھرا تھا۔ یہ سوانگ دیکھ کر سب مسکرائے، مگر چونکہ دولت اس کے ساتھ ساتھ تھی اور اقبال آگے آگے اہتمام کرتا تھا اس لئے بدمست بھی نہیں ہوتا تھا، جب نشہ سے آنکھیں کھلتی تھیں تو کچھ لکھ بھی لیتا تھا۔‘‘’’تزک جہانگیری‘‘ کے ریویو میں شبلی فرماتے ہیں، ’’آؤ دیکھیں اس جھوٹ میں کچھ سچ بھی ہے؟ ہمارے انشا پرداز نے جہانگیر کے کبھی کبھی ہوش میں آنے کا جو کارنامہ بتایا ہے وہ اس کی کتاب ’’تزک جہانگیری‘‘ ہے۔ اس کے بعد شبلی نے جو کچھ لکھا ہے، ناقدانہ اور سخن گسترانہ ہے یعنی بے ضرر چشمک کی ایک خوبصورت مثال ہے جو عنوان زیر بحث کے تحت میں آسکتی ہے۔’’شعر العجم‘‘ جس زمانہ میں لکھی جا رہی تھی، میں نے شبلی کو توجہ دلائی کہ آزاد کی تالیف موعود پر نگاہ رکھئے گا جو موضوع مشترک پر نکلنے والی ہے۔ وہ سمجھے میرا مطلب سخندان فارس سے ہے۔ ایک دوست کو لکھتے ہیں، ’’آزاد کا سخندان فارس حصۂ دوم نکلا، سبحان اللہ لیکن الحمد للہ میرے شعر العجم کو ہاتھ نہیں لگایا ہے۔‘‘مجھے تحریر فرماتے ہیں کہ ’’آزاد کی کتاب آئی، جانتا تھا کہ وہ تحقیق کے میدان کا مرد نہیں تاہم ادھر ادھر کی گپیں بھی ہانک دیتا تو وحی معلوم ہوتی لیکن خدا کا شکر ہے کہ گیارہ لکچر تک اس نے میری سرحد میں قدم نہیں رکھا، بارہویں میں یہ میدان میں اترا ہے لیکن زور پہلے صرف ہو چکا تھا۔ یونہی سرمسری چکر لگاکر نکل گیا۔‘‘میں نے لکھا، ’’میری غرض سخندان فارس سے نہیں بلکہ آزاد کے تذکرۂ شعراء سے تھی۔‘‘ اس پر تحریر فرماتے ہیں، ’’میں آزاد کی طرف سے بالکل مطمئن ہوگیا تھا، لیکن آپ نے پھر ڈرا دیا۔ مجھ کو پہلے سے معلوم ہوتا تو اس مضمون پر ہاتھ نہ ڈالتا۔‘‘ یہ جزئیات جو دکھا رہا ہوں خارج از موضوع نہیں ہیں۔ ان سے یہ پتہ چلے گا کہ شطرنج کی اصطلاح میں بساط ادب کے یہ شاطر مہرے آپس میں کس طرح گتھے ہوئے تھے۔نذیر احمد بھی تنقیص پسند نہیں تھے، ان کی لے دے زیادہ تر سرسید پر رہتی تھی لیکن اس طرح کہ، ’’وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔‘‘ خلوص تھا کہ حرف حرف سے ٹپکا پڑتا تھا، طبیعت میں منقولانہ رنگ غالب تھا، اس لئے شروع شروع سر سید کے اجتہادات سے ان کو جھجھک سی تھی جو رفتہ رفتہ گئی اور اس طرح گئی کہ سرسید کے عقیدت کیشان ِباصفا میں یہ کسی سے پیچھے نہ تھے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ یہ فراخ دلی جس کے شواہد ان کے لٹریچر میں کثرت سے نظر آئیں گے، سر سید تک محدود نہ تھی، اوروں کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا۔ ایک آدھ واقعہ اشتہاداً لیجئے۔علی گڑھ کے اسٹریچی ہال میں کانفرنس کی مقتدر جماعت کا اجلاس ہے، اطراف ملک سے پڑھے لکھے اور روادار لوگ آ آکر جمع ہوئے ہیں ۔ خطیبانہ بلند آہنگی کے سلسلہ میں ایک آوازیوں گویا ہوتی ہے، ’’میں نے کسی زمانہ میں عربی اچھی پڑھی تھی، اب تو ایسا زہول ہو گیا کہ مولوی شبلی ایک صیغہ پوچھ بیٹھیں تو بغلیں جھانکنی پڑیں ۔‘‘ ان فقروں کا نکلنا تھا کہ اس زمانہ کے مولوی شبلی جو نئے نئے علی گڈھ آئے تھے، ہزاروں نگاہوں کے نقطۂ شعاعی بنے ہوئے تھے اور یہ ان کی قابلیت کا پہلا اعتراف تھا جس کا اثر بجلی کی طرح ہال کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک دوڑ گیا۔اسی طرح نذیر احمد لکچر سے پہلے کبھی کبھی اپنی نظم سنایا کرتے تھے، ایک موقع پر فرماتے ہیں، ’’جس طرح یحییٰ پیغمبر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی منادی کرتے تھے کہ میرے بعد مجھ سے ایک بہت بڑا پیغمبر آنے والا ہے، اسی طرح میری نظم گویا ندائے عام ہے کہ میرے بعد مولوی الطاف حسین حالیؔ اپنی نظم پڑھیں گے اور میں اپنی پندار میں ان کی نظم کی رونق کاباعث ہوتا ہوں۔‘‘ اخلاقاً ایک ہم عصر کی شاعرانہ قومیت کے اعتراف کا یہ کتنا بلیغ اور خوبصورت پیرایہ ہے۔اب میں نفس موضوع سے قریب ہوتا جاتا ہوں، یہاں تک صرف بیانات اضافی تھے۔ اصلی کام ’’حالی و شبلی‘‘ کو باہم ٹکرانا ہے، لیکن ترتیباً پہلے یہ دیکھئے کہ حالی نے شبلی کی نسبت جن خیالات کا اظہار کیا ہے اس میں چشمک کا کوئی عنصر موجود ہے یانہیں؟ ’’معارف‘‘ میں نامۂ حالی وشبلی کا سلسلہ کچھ عرصہ سے جاری ہے، ان خطوں میں حالی، شبلی کو اس خلوص حسن اشتیاق سے یاد کرتے ہیں، ان کی ایک ایک تصنیف کا جس شوق و ذوق سے نام گناتے ہیں، وہ بھی اس آرزو کے ساتھ کہ کوئی کتاب ان کی لائبریری کے آغوش میں جگہ پانے سے رہ نہ جائے، اخلاص کی آخری حد ہے۔خط دیر میں ملتا ہے تو کہتے ہیں، ’’اس قدر مدت کے بعد عنایت نامہ کے ورود نے میری آنکھوں کے ساتھ وہی کیا جو پیراہن یوسفؑ نے چشم یعقوبؒ کے ساتھ کیا تھا۔‘‘ جس خط کو دیکھئے، درد محبت اور ایک خاص طرح کی صدق مقالی جو بڑے بوڑھوں کا حصہ ہوتی ہے، لفظ لفظ سے ٹپکتی ہے۔ شبلی کے پاؤں کا واقعہ پیش آتا ہے تو گھبراکر ان کے فرزند رشید ’’حامد شبلی‘‘ سے خیر و عافیت دریافت کرتے ہیں اور باوصف اس کے کہ آنکھ نے جواب دے دیا ہے، قویٰ میں بہ اقتضائے سن عام اضمحلال ہے، پھر بھی اعظم گڈھ کے سفر کی آمادگی ظاہر کرتے ہیں یہاں تک کہ ’’الندوہ‘‘ میں شبلی کے احباب کی رباعیات دیکھ کر حالی کو خیال آتاہے کہ وہ مولانا (شبلی) کے زمرۂ احباب میں ہونے کا فخر حاصل کریں۔ اس لئے ایک رباعی موزوں کر کے بھیجتے ہیں کہ الندوہ کے کسی آئینہ نمبر میں اسے بھی جگہ دے دیجئےگا۔سیرۃ النعمان جب شائع ہوئی تو حالی نے اس پر ریویو لکھا، فرماتے ہیں ، ’’انھوں نے (یعنی شبلی نے) اپنی ہرایک پہلی تصنیف میں جس بلندی پر آ پ کو دکھایا ہے اس کے بعد کی تصنیف میں ان کی لیاقت اور روش دماغی اس سے بلند تر منظر پر جلوہ گر ہوتی ہے اور جہاں تک میری نگاہ پہونچتی ہے، ’سیرۃ النعمان‘ کوان سب سے اعلیٰ منظر پر پاتا ہوں۔‘‘’’کتاب کی ترتیب، اصول، استنباط اور طرز اجتہاد کے لحاظ سے‘‘، شبلی کو حالی نے فاضل، ادیب، محقق اور اگر وہ منظور کریں تو منشی اور شاعر کی حیثیت سے یاد کیا ہے اور دیکھا ہے کہ جس طرح حسن تناسب اعضا کا نام ہے۔ ’سیرۃ النعمان‘ میں روایت ودرایت کی تطبیق اور جس موزوں طریقہ پر رائے اور قیاس سے کام لیا گیا ہے اس طریقۂ استدلال سے فلسفۂ مذہب کی بنیاد قائم ہوتی ہے اور مصنف (یعنی شبلی) نے اپنی فضیلت اور لیاقت پر سے بہت سے پردے اٹھا دیے ہیں۔شبلی ’’دستۂ گل‘‘ ہدیۃً بھیجتے ہیں تو حالی جواباً لکھتے ہیں، ’’کوئی کیوں کر مان سکتا ہے کہ یہ اس شخص کا کلام ہے جس نے سیرۃ النعمان، الفاروق اور سوانح مولانا روم جیسی مقدس کتابیں لکھی ہیں، غزلیں کا ہے کو ہیں، شراب دو آتشہ ہے جس کے نشہ میں خمار چشم ساقی بھی ملا ہوا ہے، غزلیات حافظ کا جو حصہ محض رندی اور بے باکی کے مضامین پر مشتمل ہے، ممکن ہے کہ اس کے الفاظ میں زیادہ دلربائی ہو مگر خیالات کے لحاظ سے تو یہ غزلیں اس سے بہت زیادہ گرم ہیں۔‘‘آپ کہیں گے کہ ان مسلسل انکشافات میں سوائے بہکی ہوئی باتوں کے مقصود اصلی یعنی ’’چشمک‘‘ کا اب بھی پتہ نہیں، لیکن میں عرض کر چکا ہوں کہ میں اصلی نکتہ سے قریب تر ہوتا جاتا ہوں، اصولاً اخلاق کے ساتھ تھوڑی کج ادائی بھی ہو تو زیادہ اجاگر ہوتی ہے۔ جو آنکھیں روشنی کی عادی ہوتی ہیں، ان کو تاریکی گراں گذرتی ہے، اسی طرح نفس انسانی کا رخ روشن اس کے دوسرے رخ کو زیادہ نمایاں کر دیتا ہے، اس لئے میری اضافی تصریحات بیکار نہیں ہیں۔ بہرحال اظہار خلوص کی حد تک ہو چکی، کچھ اصل موضوع یعنی ’’چشمک‘‘ کی مثالیں لیجئے۔’’حیات جاوید‘‘ میں ایک موقع پر حالیؔ فرماتے ہیں، ’’اعلیٰ تعلیم کی حمایت کے جوش میں ’سرسید‘ کے قلم سے بعض مواقع پر ایسے الفاظ نکل گئے ہیں کہ ترجموں کی غرض سے سوسائٹی قائم کرنے کو وہ اپنی غلطی تسلیم کرتے تھے اور اسی بنا پر شمس العلماء مولانا شبلی نے مسلمانوں کی گذشتہ تعلیم میں اس غلطی کا جس کو سرسید ۶۔۷ برس پہلے ایجوکیشن کمیشن میں تسلیم کر چکے تھے، ذکر کیا ہے اور اس بنا پر کہ مغربی علوم وفنون کا دیسی زبان میں ترجمہ ہونا ممکن نہیں ہے، سائنٹیفک سوسائٹی قائم کرنے کو سرسید کی ایک غلطی قرار دیا ہے اور اپنے اس دعویٰ پر کہ ترجمہ ممکن نہیں زیادہ تر وہی دلیلیں جو خود سرسید نے بعض مواقع پر بیان کی تھیں، پیش کی ہیں۔‘‘حالیؔ کہتے ہیں کہ، ’’اگر مولانا (یعنی شبلی) کی یہ اصلی رائے ہوتی تو ہم کو اس سے تعرض کی ضرورت نہ تھی، لیکن چونکہ انھوں نے خود سرسید کے بعض بیانات سے یہ رائے استنباط کی ہے، اس لئے ہم کو سر سید کے خیالات کا اصل منشاء ظاہر کرنا ہے۔‘‘ حالیؔ نے ایک ایک کرکے اعتراضات کی تردید کی ہے اور نہایت تفصیل کے ساتھ دکھایا ہے کہ شبلی کے اعتراضات کا زیادہ تر حصہ خود سرسید کے خیالات سے ماخوذ ہے، ’’چشمک‘‘ کی یہ پہلی مثال ہے جس میں حالی کی حیثیت نسبتی اقدامی نہیں بلکہ دفاعی ہے اور جس میں ناقدانہ اظہار خیال کے سوا در پردہ کوئی چوٹ نہیں ہے۔یہاں تک تو آپ نے دیکھا کہ حالیؔ کا شبلی کے ساتھ کیا رنگ تھا، لیکن یہ شراب اب تیز ہوا چاہتی ہے۔ اب یہ دیکھئے شبلی کے خیالات و مقالات کا جہاں تک خوش صفات حالی کا تعلق ہے، کیا حال ہے۔ شبلی نے ابھی ’’المامون‘‘ نہیں لکھی ہے یا لکھی ہے، لیکن لکھنے سے پہلے حیات سعدی پیش نظر ہے۔ ایک عزیز کو لکھتے ہیں، ’’ایک کتاب حال میں مولوی حالی صاحب نے لکھی ہے اور مجھ کو تحفۃً بھیجی ہے، شیخ سعدی کی نہایت دلچسپ محققانہ سوانح عمری ہے، میں نے بے اختیار تمہارے لئے پسند کیا اور مولوی حالی صاحب کو لکھ دیا ہے کہ وہ تمہارے نام بھیج دیں۔ واقعی بے مثل ہے اور تم کو اپنے پاس رکھنا نہایت ضروری ہے۔‘‘ لیکن یہ دیکھنا ہے کہ شبلی صاحب خود تصنیفات کے مالک ہوئے تو حالی کے ساتھ یہ حسن ظن کہاں تک قائم رہا؟سوانح مولانا روم میں شبلی یوں اظہار خیال کرتے ہیں، ’’تمام اہل تذکرہ متفق ہیں کہ جن لوگوں نے غزل کو غزل بنایا، ووہ سعدی، عراقی اور مولانا روم ہیں، اس لحاظ سے مولانا کے دیوان پر ریویو کرتے ہوئے ہمارا فرض تھا کہ سعدی اور عراقی سے ان کا موازنہ کیا جاتا، تینوں بزرگوں کے نمونے دکھائے جاتے اور ہرایک کی خصوصیات بیان کی جاتیں اور چونکہ ہمارے ہیرو ہیں اس لئے مذاق حال کے موافق خواہ مخواہ بھی ان کو ترجیح دی جاتی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنا واقعہ نگاری کے فرائض کے بالکل خلاف ہے۔‘‘اگر تھوڑی دیر کے لئے بھی یہ مان لیا جائے کہ شبلی کا روئے سخن ’’حیات سعدی‘‘ یا ’’یادگار غالب‘‘ کی طرف ہے، تو چشمک کی یہ نہایت ہی چبھتی ہوئی مثال ہوگی جو ناظرین کے سامنے پیش کی جاسکتی ہے، لیکن ایک نکتہ سنج پوچھ سکتا ہے کہ کیا یہی طریقہ نمایاں طورپر ’’موازنۂ انیس و دبیر‘‘ میں اور ایک کافی حد تک ’’شعر العجم‘‘ میں اختیار نہیں کیا گیا؟ ’’کلیات خسرو‘‘ جس کی تہذیب و ترتیب بزعم علی گڈھ آج کل کے معرکۂ ادب میں پیش پیش ہے اور جس میں تنقید کے سلسلہ میں معاصرانہ کلام کا موازنہ کیا گیا ہے، کہاں تک واقعہ نگاری کے خلاف ’’مذاق حال‘‘ سے بے نیازی کا دعویٰ کرسکتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آیا حالی اس نکتہ کے سمجھنے سے قاصر تھے؟’’چشمک‘‘ کی دوسری مثال لیجئے۔ ’تذکرۂ گلشن ہند‘ کے حاشیہ میں شبلی لکھتے ہیں، ’’مولوی حالی صاحب نے اپنے دیوان کے مقدمہ میں لکھنؤ کی شاعری میں صرف نواب مرزا شوق کی مثنویوں کا اعتراف کیا ہے، لیکن چونکہ ان کے نزدیک شعرائے لکھنؤ سے ایسی فصاحت اور سلاست کی توقع نہیں ہو سکتی، اس لئے اس کی وجہ یہ قرار دیاکہ نواب مرزا نے خواجہ اثر کی مثنوی دیکھی تھی اور اس کا طرز اٹھایا تھا، یہ اشعار مثنوی کے ہیں، اس کا فیصلہ خود ناظرین کر سکتے ہیں کہ یہ مثنوی نواب مرزا کا ماخذ اور نمونہ ہو سکتی ہے۔‘‘اسی طرح جیساکہ ’’دیباچہ گلزار نسیم‘‘ کے حاشیۂ ذیلی میں تصریح کی گئی ہے۔ شبلی نے لائق چکبست کو لکھا تھا کہ ’’گلزار نسیم کی تنقید میں مولانا حالی نے سخت بے رحمی اور نانصافی سے کام لیا ہے۔‘‘میں اس کے متعلق خود کچھ لکھنا نہیں چاہتا۔ مولوی عبد الحق کے ذمہ دار قلم سے ٹپکی ہوئی سیاہی جس طرح پھیلی ہے ایک نظر دیکھنے کے لائق ہے۔ جس طرح ناممکن ہے کہ ٹکسالی (اسٹینڈرڈ) کتاب پر ان کا مقدمہ نہ ہو، یہ بھی ناممکن ہے کہ کسی نہ کسی حیثیت سے حالی کی پاسداری میں یہ شبلی پر چوٹ نہ کرتے ہوں، یعنی چشمک کے جراثیم ان کے مقدمات میں کثرت سے ملیں گے کہ یہ امران لٹریچر کے خصائص کا ایک جزو ہوگیا ہے۔ پس یہ معلوم ہوتاہے کہ یہ موقع کی تاک میں رہتے ہیں اور اظہار خیال سے کبھی نہیں چوکتے، لیکن میں اگر غلطی نہیں کرتا تو یہ جو کچھ لکھتے ہیں نکتہ سنجانہ لکھتے ہیں یعنی شبلی کی تنقیص مقصود بالذات نہیں ہوتی۔یہاں تک تو ’چشمک‘ کی صرف نرم مثالیں تھیں یعنی تلخ گولیاں غلاف شکر میں۔ اب ذرا قوی تر شواہد لیجئے، مناقب عمر بن عبد العزیز کے ریویو کے سلسلہ میں شبلی فرماتے ہیں، ’’سوانح نویسی کے فرائض میں سے جو بڑا فرض مصنف سے رہ گیا وہ تنقید ہے یعنی مصنف نے اپنے ہیرو کی خوبیاں دکھائی ہیں، اس کے کسی قول وفعل پر نکتہ چینی نہیں کی، لیکن یہ اس زمانہ کے تمام سوانح نگاروں کا انداز ہے۔‘‘اسی سلسلہ میں ارشاد ہوتا ہے، ’’مصنفین اسلام آج کل کے فریب دہ طریقوں سے بالکل آشنا نہ تھے۔ آج کل کی سوانح نگاری کا انداز یہ ہے کہ حقیقت نگاری کے ظاہر کرنے کے لئے ہیرو پر نکتہ چینی کی جاتی ہے لیکن اس طرح کہ محاسن نہایت وسعت اور عمومیت کے ساتھ ہر پہلو سے دکھائے جاتے ہیں۔ پھر نہایت کمزور اور ضعیف الفاظ میں ایک آدھ اعتراض بھی کر دیے جاتے ہیں، جس سے در اصل مداحی کو اور قوت دینی مقصود ہوتی ہے کیونکہ اس سے یہ ظاہر کرنا منظور ہوتا ہے کہ مصنف نے واقعہ نگاری کے لحاظ سے کسی واقعہ کو چھپانا نہیں چاہا ہے اور اس لحاظ سے ممدوح کی چھوٹی سے چھوٹی برائی کابھی ذکر کردیا ہے، ورنہ ایسے محاسن اور خوبیوں کے مقابلہ میں ایک ذرا سی برائی بالکل نظرانداز کرنے کے قابل تھی۔ یہ طریقہ ہماری زبان کے سوانح نگاروں نے یورپ سے سیکھا ہے۔ اردو کی اعلیٰ سے اعلیٰ سوانح عمریوں کا یہی انداز ہے۔ لیکن یہ طریقہ قدیم طریقہ سے بہت زیادہ قابل اعتراض بلکہ خظرناک ہے۔ قدیم طریقہ صرف سکوت کا مجرم تھا لیکن موجودہ طریقہ در حقیقت خیانت اور خداعی ہے جو واقعہ نگاری سے بہ مراحل دور ہے۔‘‘یقینا ً ناظرین سمجھ گئے ہوں گے کہ شبلی کا روئے سخن کس کی طرف ہے اور اعلیٰ سے اعلیٰ سوانح عمری سے ممدوح کا مقصود کیا ہے؟ شیش محل میں بیٹھ کر اوروں پر پتھر پھینکنا ایک خوش ادائی سہی لیکن کیا دانائی بھی ہے؟ اس کا جواب صفحات زیر تحریر میں مل جائےگا، لیکن جلدی نہ کیجئے اور لیجئے۔ مآثر رحیمیؒ کے ریویو میں ارشاد ہوتا ہے،’’اس کتاب میں تمام خوبیوں کے ساتھ یہ بہت بڑا عیب ہے کہ خانخاناں کی خوبیاں ہی خوبیاں گنائی ہیں، نکتہ چینی کا نام نہیں، حالانکہ آج کل کے مذاق کے موافق سوانح عمری اور لائف کی یہ ضروری شرط ہے، لیکن اس طریقہ کو ہم آج کل کے پرفریب طریقہ سے زیادہ پسند کرتے ہیں، جس میں راست نویسی اور تنقید کا بہت کچھ دعویٰ کرکے بھی سوانح عمری کے بجائے مناقب کی کتاب لکھی جاتی ہے اور کوئی عیب اور وہ بھی خفیف کر کے لکھا جاتا ہے تو اس غرض سے کہ محاسن کے یقین کرانے کے کام آئے، یعنی جب عیب نہیں چھپایا ہے تو محاسن کیوں غلط لکھے ہوں گے، بہتر سے بہتر سوانح عمری جو ہماری زبان میں لکھی گئی ہے اس طریقہ کی عمدہ مثال ہے۔‘‘ابھی اور لیجئے، موازنۂ انیس و دبیر میں اسی خیال کا اعادہ یوں کیا گیا ہے، ’’ہمارے زمانہ میں جو سوانح عمریاں لکھی گئی ہیں، ان میں باوجود دعویٰ آزادی کے تنقید اورجرح سے بالکل کام نہیں لیا گیا اور اس کا یہ عذر کیا جاتا ہے کہ ابھی قوم کی یہ حالت نہیں کہ تصویر کے دونوں رخ اس کو دکھائے جائیں لیکن عذر کرنے والے خود اپنی نسبت غلطی کر رہے ہیں۔ جس چیز نے ان کو اظہار حق سے روکا ہے وہ ایشیائی شخص پرستی ہے جس کا اثر رگ و پے میں سرایت کر گیا ہے اور عذر کرنے والوں کو خود اس کا احساس نہیں ہوتا۔ اس غلامانہ شخص پرستی سے ایک بڑا ضرر یہ ہے کہ جو لوگ ان کابر کی تقلید کرتے ہیں، ان میں ہزاروں ایسے ہوتے ہیں جن کو خود نیک و بد کی تمیز نہیں ہوتی، اس لئے وہ اچھی باتوں کے ساتھ اکابر کی غلطیوں کی بھی تقلید کرنے لگتے ہیں اور سلسلہ در سلسلہ تمام قوم میں اس کا اثر پھیل جاتا ہے۔‘‘اخلاقی حیثیت سے مولانا کی نگاہ جس نکتہ پر بار بار پڑتی ہے اس کے اہم نتائج سے کون انکار کر سکتا ہے۔ آپ دیکھیں گے ابھی تک اظہار خیال پر ایک نقاب پڑی ہوئی ہے، مگر یہ نقاب اس قدر ہلکی ہے کہ باریک تاروں سے چھن چھن کر ’’چشمک‘‘ کی شوخیاں آپ کے ذوق پردہ دری کو اکسائیں گی، لیکن ذرا ٹھہرئیے، اس کا حسن عریانی دیکھنے کے لائق ہے، یعنی اس وقت تک تصریحات کی جگہ صرف اشارات وکنایات تھے، اب صاف صاف لیجئے، شبلی کہتے ہیں،’’حیات جاوید میں مولانا (حالی) نے ’سید صاحب‘ کی یک رخی تصویر دکھائی ہے، اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ کسی کے معائب دکھانے تنگ خیالی اور بدطینتی ہے لیکن اگر یہ صحیح ہو تو موجودہ یورپ کا مذاق اور علمی ترقیاں سب برباد ہوجائیں ۔ پھر ایشیائی شاعری میں کیا برائی ہے، سوائے اس کے کہ وہ محض دعویٰ کرتے تھے، واقعات کی شہادت پیش نہیں کرتے تھے، بہرحال حیات جاوید کو مدلل مداحی سمجھتا ہوں۔‘‘اس پر بھی تسکین نہیں ہوتی، ایک دوست کو پھر لکھتے ہیں، اختلاف آراء بھی کیا چیز ہے، ‘’حیات جاوید کو میں لائف نہیں سمجھتا بلکہ کتاب المناقب سمجھتاہوں اور وہ بھی غیر مکمل۔ خیر الناس فیما یعشقون مذاہب۔‘‘یہاں دلچسپ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ’’آج کل کا پرفریب طریقۂ سوانح نگاری‘‘ جو شبلی کے خیال میں ایک طرح کی ’’خیانت اور خداعی‘‘ ہے اور جس پر بار بار بے چینی کے ساتھ زور دیاگیا ہے، دراصل حالی کی ایجاد ہے یا شبلی کی تصنیفات بھی اسی دائرہ میں آجاتی ہیں ۔ تاریخی تنقید کا یہ ایک نہایت نازک نکتہ ہے جس پر مولانا نے اگر مزید روشنی ڈالی ہوتی تو دنیائے ادب کے لئے ایک جدید انکشاف ہوتا۔اسی طرح حالی کی یہ صنعت گری جہاں یورپ کے طرز تحریر سے ماخوذ بتائی گئی ہے، شبلی یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس پرفریب طریقہ سے جو ایشیائی شاعری سے ملتا جلتا ہے، موجودہ یورپ کا مذاق اور علمی ترقیاں سب برباد ہوجائیں گی۔ لٹریچر کی طرف سے مولانا کی اس فی الوقت دقیقہ رسی اور جوش التفات کا شکریہ، لیکن ایک نکتہ داں یہ سوال کر سکتا ہے کہ خطرے کا احتمال ظاہر کیا گیا ہے۔ اس کے لحاظ سے مغربی زبان کی کوئی سوانح عمری ایسی دکھائی جا سکتی ہے جس میں محاسن کے ساتھ معائب ابھار کر دکھائے گئے ہوں، کم سے کم جتنی مستند کتابیں سیرۃ (لائف) کی حیثیت سے انگریزی زبان میں لکھی گئی ہیں، وہ اکثروں کے دائرۂ نظر میں ہوں گی لیکن افسوس یہ ہے کہ ’’حیات جاوید‘‘ کی طرح کسی کتاب سے مولانا کی توقعات پوری ہوتی معلوم نہیں ہوتیں، یعنی ان میں ایسے مستقل ابواب نہیں ملتے جن میں ’’یکے از اقوام جرائم پیشہ‘‘ یا ’’باب الاشرار‘‘ کے عنوان سے کسی شخص کے حفظ غیب کا غیر ضروری خاکہ اڑایا گیا ہو۔ایک ادیب معارضہ بالمثل کی حیثیت سے پوچھ سکتا ہے کہ بہ لحاظ فن حالی کے اقتصار کی طرف نیک نیتی سے شبلی کا ذہن منتقل ہوا ہے، خود ان کی تصنیفات میں یہ رعایت کہاں تک ملحوظ رکھی گئی ہے یعنی المامونؔ، سیرۃ النعمان، الفاروقؔ اور الغزالیؔ میں انسانی کمزوریاں کس حد تک ابھار کر دکھائی گئی ہیں، اس کا جواب مجھے خوف ہے غیرامید افزا ہوگا۔ کیا یہ علم النفس کی حق تلفی نہیں ہے جو ایک نکتہ سنج مؤرخ کے قلم سے ہوسکتی ہے کیونکہ عظمت خود ملک کے سب سے بڑے مؤرخ کے خیال کے مطابق واقعات کو بدل نہیں سکتی۔بہر حال یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’’حیات جاوید‘‘ کے لئے حالی کی طرف سے اعتذار (اپالوجی) کی بالکل ضرورت نہیں، ایک شریف نے ایک شریف تر انسان کی ہمدردانہ سرگذشت لکھی اور آشنائے فن ہوکر لکھی اور یہی اونچے سے اونچا معیار تحریر ہے جو ایمان بالغیب کی حیثیت سے یورپ کی طرف منسوب کیا جا سکتا ہے۔یہ قطعی ہے کہ ’’حیات جاوید‘‘ کارئیس التذکرہ فرشتہ نہیں تھا، انسان تھا، لیکن اس کے اخلاقی اوصاف اس کی اضطراری لغزشوں پر جنھیں انسانی کمزوری سمجھئے، غالب تھے۔ یہی مابہ الامتیاز ہے جس کی بنا پر سوانح نگار کسی بڑے سے بڑے شخص کو دنیا کے سامنے پیش کر سکتا ہے۔ سرسید کی کمزوریاں جن کی بے نقابی پر شبلی کو اس قدر اصرار ہے اور جن کے اظہار میں حالیؔ نے صرف بے دردی سے کام نہیں لیا، در اصل سرسید کی زندگی کے وہ عناصر ہیں جن کے بغیر انسانی اخلاق کی تکمیل ناممکن ہے، لیکن اس قسم کے اضافی تصریحات کا بے ضرورت پھیلانا اور تنقیصی پہلو کا اس طرح نمایاں کرنا کہ اصلی محاسن دب دبا جائیں، بالکل ایسا ہی ہوگا جس طرح ’’ندوہ‘‘ کے آخری مناقشات کو شبلی کی ادبی زندگی سے وابستہ کیا جائے جس پر مولانا کا سوانح نگار کبھی راضی نہیں ہوگا اور جسے شبلی کی علمی ’’نفسیت‘‘ (سائیکالوجی) سے دراصل کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ غور طلب ہے کہ غالب کی طرح شبلی کی افراط خودداری معاصرانہ کمالات کے اعتراف میں فیاض نہیں ہے۔ شبلی نے الکلام لکھی لیکن سرسید کا نام تک نہ آیا حالانکہ سرسید پہلے شخص ہیں جنھوں نے دور جدید میں مذہب کو معقولات عصریہ سے تطبیق دینے کی کوشش کی اور یہ امر بلااختلاف ان کی اولیات میں محسوب ہونے کے لائق ہے۔ ہم کو مصر کے مذہبی لٹریچر کی اوقات معلوم ہے، اس لئے مصطلح جبہ ودستار کی فضیلت سے اگر قطع نظر کر لیجئے تو سرسید اور ان کے رفقاء نے جو کچھ لکھ دیا ہے، مشکل سے اس پر کچھ اضافہ ہو سکتا ہے، اور یہ سرسید کے اختراعی دماغ اور ان کے زبردست اجتہاد کا اتنا بڑا کارنامہ ہے کہ عدم اعتراف در اصل لٹریچر کی خوش ظرفی ہوگی۔میں یہاں اس بحث کو چھیڑنا نہیں چاہتا کہ عقائد کو، جو جذباتی چیز ہیں، معقولات سے بھڑانا جن پر ہمارے متکلمین کو اس قدر ناز ہے، دراصل کہاں تک گول خانہ میں چوکھنٹی چیز کا مصداق ہے۔ میرا منشاء صرف یہ ہے کہ اس موضوع پر جو کچھ اس وقت تک لکھا گیا یا آئندہ لکھا جائےگا وہ محض سرسید کے قلم کی آواز باز گشت ہوگی۔ یہ دلچسپ سوال ابھی باقی ہے کہ حالیؔ کے ہیرو کے ساتھ شبلی کو اس قدر ’’چشمک‘‘ کیوں ہے۔ کیا یہ جامع حیثیات شخصیت شبلی کے ناموران اسلام کا رنگ پھیکا کرنے والی ہے؟ یا جس طرح ایک خوبصورت عورت دوسری پر کالۂ آتش کو دیکھ نہیں سکتی! در اصل جذبۂ رشک اس کی تہ میں ہے، ملک کے ایک بہت بڑے فاضل کی رائے کے مطابق سر سید کے بعد اگر اردو میں کوئی قلم اٹھا سکتا ہے، تو وہ حالی ہیں اور اس میں کچھ شک نہیں کہ حالی نے ’’سرسید کی صرف کثیر الاوراق لائف نہیں لکھ دی۔‘‘ بلکہ یہ اردو لٹریچر میں ایسا اضافہ ہے جو حالی کی ذات پر ختم ہو گیا لیکن کیا شعر العجم کے مصنف کو بھی اس پر رشک کرنا چاہئے، اس کا جواب آگے چل کر تاریخ دے گی۔ نہ جانناکبھی کبھی جاننے سے زیادہ باکیف ہوتا ہے، اس لئے سردست میں اس لطف کو کھونا نہیں چاہتا۔لیکن شعرالعجم کے ساتھ جو ایک ذوقی چیزہے، میری بڑھی ہوئی حسن عقیدت اس موازنہ کو جائز نہیں رکھے گی، اس لئے حیات جاوید کے مقابلہ میں شبلی کی صرف ان تصنیفات کو رکھئے جو اپنی نوعیت کے لحاظ سے جنس مشترک کی حیثیت رکھتی ہیں، آج کل کی عوائد رسمیہ (ایٹی کیٹ) کی نزاکتیں شائستہ سوسائٹی میں موازنۂ اوصاف کو جائز نہیں رکھتیں لیکن مصنفین کے دماغوں کی رگڑ فن تنقید کا ایک سخن گسترانہ فرض ہے جس سے قطع نظر نہیں کی جا سکتی۔ اس لئے چشمک کے وہ عقدہ ہائے سربستہ جن میں حالی کے مقابلہ میں لائق عزت شبلی کا پہلو کچھ دیتا ہوا سا ہے، کھلے ہوئے رازکی حیثیت سے پیش کئے گئے ہیں ۔ قبل اس کے کہ میں اسے ختم کروں ایک فقرہ معترضہ بار طبیعت ہو رہا ہے، جس سے اسی سلسلہ میں نپٹ لینا چاہتا ہوں۔ ’’چشمک‘‘ جس کے متعدد نظائئر جہاں تک گنجائش تھی بہم پہونچائے گئے ہیں ۔ وراثت طبعی کے اثر سے اس کا سلسلہ اور بڑھتا ہے۔ ایک زاویۂ علمی کا نوجوان ’’سید الطائفہ‘‘ 1 جسے آگے چل کر نظام ادبی کا ایک قوی تر عنصر ہونا ہے، ایک غیرمتعلق تصنیف کے سلسلہ میں یوں اظہار خیال کرتا ہے،’’مولوی نذیر احمد بھی اس گناہ کے مجرم ہیں، جس قلم نے مراۃ العروس، بنات النعش، توبۃ النصوح، ابن الوقت اور ایامیٰ لکھنے میں زندگی بسر کی ہو، وہ الفراض اجتہاد، ترجمۂ قرآن، امہات الامۃ کے لئے سنجیدگی عبارت، متانت کلام اور ثقاہت بیان کہاں سے لائےگا۔ مقصود یہ ہے کہ مذہبی کتابوں اور بزرگان دین کی تاریخ کے لئے سنجیدگی چاہئے۔ شوخ اور ظریفانہ عبارت اور سخیف محاورات موزوں نہیں۔‘‘یہ مولوی نذیر احمد کون؟ وہی جن کا تصنیفی نام عوام میں ڈپٹی نذیر احمد ہے! آہا، آقائے اردو علامہ نذیر احمد ایل ایل ڈی، جو ملک میں السنۂ مشرقیہ کا سب سے بڑا ادیب تھا، جس کی عربیت اس پایہ کی تھی کہ سخت سے سخت منحرف بھی اس کا لوہا مانتے تھے اور اس کے تبحر علمی سے مرعوب رہتے تھے جس نے اردو سی کم مایہ زبان کو اپنے خاص طرز ادا اور زور فصاحت سے ایسا کردیا کہ آئندہ دنیا اس پر ادب العالیہ (کلاسیکس) کا اطلاق کرے گی، جس کی طبیعت میں قدرت نے عربی کا مذاق اس لئے رکھا تھا کہ وہ عرب کے صحیفۂ آسمان کا قالب بدل سکے۔ پہلے ترجمۂ قرآن کا یہ رنگ تھا، ’’مستی نکالیتاں اور ریار کرتیاں چھپ کر۔‘‘اب وہ شستہ، رفتہ اور فصیح اردو کا ایسا مرقع ہے جس پر انشاپردازی ناز کر سکتی ہے۔ نذیر احمد نے مراۃ العروس کے سوا اگر کچھ نہ لکھا ہوتا جب بھی ان کے کمال انشا پردازی کے ثبوت کے لئے یہ اکیلی کتاب کافی تھی۔ ہم کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اس وقت ایک گراں پایہ مصنف تھے، جب ہمارے لائق ادب بزرگوں میں بہتیروں نے قلم ہاتھ میں نہیں لئے تھے، رہی ان کی ظرافت جو ان ہی کا حصہ ہے اور جسے آپ کھانے میں نمک سمجھئے اور میں لٹریچر کے چہرے کا تبسم کہوں گا، جو نئی تحقیقات کے مطابق صرف خوش ادائی نہیں، بلکہ اخلاقی پاکیزگی کے ساتھ کامل صحت کی دلیل ہے۔صرف ایک مثال لیجئے۔ نزول قرآن کے سلسلہ میں ’نذیر احمد‘ اپنے فصیح لکچر میں ایک جگہ کہتے ہیں،’’جن دنوں قرآن نازل ہوا ہے، وہ ایک وقت تھا کہ عربی لٹریچر کے جوبن پر ایک بہار آ رہی تھی۔ لوگوں میں یہ مادہ ایسا برسر ترقی تھا کہ کوئی تنفس مذاق شعری سے خالی نہ تھا۔ یہ تو عربی زبان کے عروج کا زمانہ تھا۔ یوں بھی عرب کو اپنی بولی پر بلا کا ناز تھا۔ انھوں نے اپنے سوا دوسروں کا نام رکھا تھا ’’عجم‘‘ یعنی گونگے یا جن کو بات کرنے کا سلیقہ نہیں ۔ ایسے لوگوں سے کیسی ہی اچھی بات کہی جاتی مگر وہ ہوتی حلیۂ فصاحت سے عاری تو ان کے کان پر جوں بھی نہ چلتی۔ پس ضرور تھا کہ اسی داؤ سے ان کو پچھاڑا جائے جو ان کو خوب رواں تھا یعنی ’فصاحت‘، قرآن نازل ہوا تو جو اپنے اپنے وقت کے ’’سر سید، محسن الملک، سید محمود اور حالی و شبلی تھے، سب کے چھکے چھوٹ گئے۔‘‘یہی بلاغت ہے جس کی بنا پر کہا گیا ہے کہ انشا پرداز کا ایک فقرہ ہزاروں علمی اور تاریخی اوراق پر بھاری ہوتا ہے اور یہی تصرفات ہیں، جن کے لحاظ سے ایک ادیب کو بڑے سے بڑے فلسفی اور مؤرخ پر ہمیشہ ترجیح رہےگی۔یہی بلاغت تھی جس نے کسی زماے میں ’’حیدر آباد دکن‘‘ کے ’’بسمارک‘‘ کو نذیر احمد کا شیدائی بنا رکھا تھا۔ سرسالار جنگ اول اسٹیٹ ڈنر پر ہیں، طلائی قابوں کا دور چل رہا ہے، چھری کانٹوں کی دھیمی موسیقیت میں دفعتاً سرکاری ڈاک کے آنے کی اطلاع ہوتی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے نذیر احمد کی کوئی مراسلت ہو تو فوراً پیش کی جائے، ایک منٹ کے بعد جلیل القدر میزبان شام کے ہاتھ میں ایک کاغذ ہوتا ہے۔ برقی روشنی کی جگمگاہٹ میں شائق ادب امیر الامراء کی نگاہ نقوش حرفی پر دوڑ رہی ہے اور چہرے پر رہ رہ کر وہ کیفیت طاری ہوتی ہے جسے تبسم زیر لب کی ہلکی لہریں کہئے، نذیر احمد کے خون ادب کا یہ وہ لقمۂ تر تھا جس سے شاہی میز بھی بے نیاز نہ رہ سکی لیکن اب یہ ہمارے گلے میں پھنسنے لگا ہے، جسے ہم اگلنا چاہتے ہیں، مگر یہ بے نمکی روایات سابقہ کے لحاظ سے کچھ ٹھیک نہیں معلوم ہوتی، ادب چاہتا ہے۔ ان کا کمال انشا پردازی غیرستائشی جنبش لب سے ہمیشہ بے نیاز رہےگا۔آخر میں مجھے ایک نکتہ صاف کرنا ہے یعنی حالیؔ کے ساتھ شبلی کی چشمک کے جو شواہد پیش کئے گئے ہیں، ان سے کوئی صاحب یہ نہ سمجھیں کہ شبلی کو حالی سے خلوص نہیں تھا۔ شبلی، حالی کو ہمیشہ عزت کے ساتھ یادکیا کرتے تھے، فرمایا کرتے تھے کہ، ‘’جب تک مواد تحریری نہ ہو میں ایک قدم بھی چل نہیں سکتا، مگر حالی کی نکتہ آفرینی اس کی محتاج نہیں، ان کی دقیقہ رس اور نکتہ سنج طبیعت ایسی جگہ سے مطلب نکال لاتی ہے جہاں ذہن میں بھی منتقل نہیں ہوتا اور یہ کمال اجتہاد کی دلیل ہے۔‘‘پاؤں کے واقعہ کے بعد شبلی کو حالی نے وفور جوش میں جو رباعی لکھ کر بھیجی تھی اور جس کا ذکر اوپر گذر چکا ہے، شبلی ’’الندوہ‘‘ میں ’’مولانا حالی کی ذرہ نوازی‘‘ کے عنوان سے یوں رقم طراز ہیں، ’’مولانا کا میری نسبت ایسے خیالات ظاہر کرنا محض ان کی ذرہ نوازی ہے۔ وہ میرے احباب میں شامل ہونے کا ننگ گوارا فرماتے ہیں، لیکن میری یہ عزت ہے کہ مجھ کو اپنے نیاز مندوں کے زمرہ میں شامل ہونے کی اجازت دیں ۔ اب چند ہی ایسی صورتیں باقی رہ گئی ہیں جن کو دیکھ کر قدماء کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، خدا ان بزرگوں کا سایہ قائم رکھے۔‘‘بہرحال’’چشمک‘‘ جو کچھ تھی ادبی حیثیت سے تھی، نج کے تعلقات دونوں صاحبوں کے اتنے ہی خوش گوار تھے جتنے باوصف اختلاف و کلائے مقدمہ کے اجلاس سے باہر ہوا کرتے ہیں ۔ ان چند صفحوں سے خصائص نفسی کے مختلف رخ سامنے آ گئے ہیں، ورنہ میری غایت محض تنشیط ادب یعنی احباب کی دماغی تفریح کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس حیثیت سے اردو لٹریچر میں غالباً یہ ایک نیا مضمون ہے۔ حاشیے (1) معارف، علی گڈھ کی طرف اشارہ ہے، مرتب۔(2) جس مضمون کا حوالہ حالی نے دیا ہے، رسائل شبلی کے طبع جدید میں اس کے دو ٹکڑے ہو گئے ہیں، یعنی قدیم تعلیم اور تراجم، جدید معلومات کے اضافہ کے ساتھ وہ حصہ نکال ڈالا گیا ہے جس میں سرسید پر کچھ اعتراضات تھے، مہدیؔ۔(3) میرے مخاطب صحیح وہ حضرات نہیں ہیں جو تنقیص و تنقید میں امتیاز نہیں کر سکتے، یا کرنا نہیں چاہتے، نہ جاننا (جہل) چنداں لائق اعتراض نہیں، لیکن یہ بھی نہ جاننا کہ نہیں جانتے (جہل مرکب) قطعاً لائق معافی نہیں ۔ ایک بیباک نے حال میں لکھا تھا کہ شعر العجم پروفیسر براؤن کی ’’لٹریری ہسٹری آف پرشیا‘‘ کا سرقہ ہے، شاید کہنا یہ منظور ہوگا کہ براؤن کی کتاب سے ماخوذ ہے، لیکن غریب کو معلوم نہیں کہ براؤن نے فارسی شاعری کی تاریخ نہیں لکھی بلکہ در اصل وہ اسلامی لٹریچر کی دماغی تاریخ ہے، ایران سے جو کچھ تعلق ہے یہ ہے کہ براؤن ان مصنفین کو الگ کرتا گیا ہے جو اسلام کے وسیع دور میں خاک عجم سے وقتاً فوقتاً اٹھتے رہے، اس میں شعراء کا ذکر ضمناً آیا ہے، وہ بھی تاریخی حیثیت سے ذوقی اور جذباتی حیثیت سے نہیں کہ براؤن کے بس کی بات نہیں تھی، شعر العجم کا موضوع بالکل جداگانہ ہے۔ہماری زبان پر ’’فلسفہ‘‘، ’’ارتقا‘‘ اور جانے کیا کیا بے سوچے سمجھے اس بری طرح چڑھ گیا ہے کہ خیر سے معلومات میں تو کچھ اضافہ ہوا نہیں لیکن ان الفاظ کی رہی سہی آبرو بھی جاتی رہی، جس ملک میں تنقید عالیہ (ہائر کریٹی سزم) کا مفہوم صحیح اچھے خاصے پڑھے لکھے نہ سمجھ سکتے ہوں، میں نہیں جانتا شعر العجم کی نزاکتیں کس طرح ان کے ذہن میں داخل کی جائیں، مجبوراً میں اس گناہ کا مرتکب ہوتا ہوں جس سے اوروں کو باز رکھنا مقصود ہے اور مجھ کو کہنا پڑتاہے کہ شعر العجم تذکرۂ شعراء نہیں بلکہ جہاں تک شاعری کی ماہیت نفسی کا تعلق ہے، اس کی ارتقائی تاریخ ہے (دیکھئے، ’’ارتقا‘‘ زبان پرآہی گیا)جس طرح ماضی حال کا باوا اور مستقل کا دادا ہے، بعینہ دنیائے ادب میں بھی یہی ترتیب عمل جاری ہے، متقدمین نے متوسطین اور متوسطین نے متاخرین پیدا کئے، بالفاظ غیر، سعدیؔ، حافظؔ، فردوسیؔ و خیامؔ جس زمانہ میں ہوئے اور جو کچھ ہوئے اسی زمانہ میں ان کا ہونا ناگزیر سا تھا، اسی طرح ان کے کلام کی عصری خصوصیات در اصل ان کے کمال اجتہاد سے زیادہ وراثت ادبی کے قدرتی نتائج ہیں ۔ شعر العجم نے اسی طلسم کی عقدہ کشائی کی ہے لیکن یہ باتیں ابھی نصف صدی کے بعد ہماری سمجھ میں آئیں گی، اس وقت تک اس کتاب پر اظہار خیال ملتوی رہتا تو اچھا تھا۔شبلی تو کیا براؤن کاخاکہ اڑائیں گے، لیکن ایک صاحب نے علی گڈھ میں بیٹھ کر ڈنکے کی چوٹ شاعری پرجس جامعیت کے ساتھ اظہار خیال کی ٹھہرائی ایڈیٹر معارف کے سنجیدہ قلم کو اعتراف کرنا پڑا کہ گویا ’’شعر العجم‘‘ ہے۔ ایک چھوٹے سے لفظ کے زہر کو دیکھئےگا جس کا تریاق ایک دفتر میں بھی نہیں ہوسکتا۔ مہدیؔ(4) یعنی مولانا سید سلیمان ندوی، مرتب۔(5) اس مضمون میں جس قدر اقتباسات لئے گئے ہیں، ان کے لئے اردو لٹریچر کے عناصر خمسہ (سرسید، آزاد، نذیر احمد، حالی اور شبلی) کا پورا دفتر پیش نظر تھا لیکن افسوس ہے کہ سلسلۂ اقتباس میں میں نے صفحات متعلق کے حوالے محفوظ نہیں رکھے، ختم کرنے کے بعد اس کا خیال آیا، اب یہ ایک درد سری تھی جسے کسی طرح گوارا نہیں کرسکا تاہم میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ اس پیوندکاری میں میں نے کہیں سے کوئی تصرف یا اضافہ نہیں کیا ہے اور جس قدر اجزا جہاں جہاں سے لئے گئے ہیں، علامات اقتباس میں بجنسہ پیش کردیئے گئے ہیں، جن میں کوئی گھٹ بڑھ نہیں ہونے پائی ہے۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.