حال سخاوت کا

حال سخاوت کا
by ماسٹر رام چندر
319272حال سخاوت کاماسٹر رام چندر

نہایت بزرگ نیکیوں میں سے سخاوت بھی ایک ہے۔ اس جائے ہم معنی سخاوت کے یہ نہیں لیتے کہ کسی شخص کی روپیہ پیسے یا کھانے کپڑے سے مدد کرنا بلکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ اگر کوئی شخص کسی اور کو اچھی صلاح بتا دے یا گمراہی سے راہ پر لےآوے یا اسے علم سکھاوے یا کسی اور مصیبت میں سے خلاص کرے تو یہی شخص سخی ہے۔ الغرض جو شخص اپنا کسی طرح کا ہرج ذاتی کر کے دوسرے کے آرام کے واسطے کوشش کرے وہ شخص بے شک سخی ہے۔

جس وقت تعریف سخاوت کی ہوچکی تو لازم ہے کہ ہم اس کے فوائد کثیر کا جو خلقت کو پہنچتے ہیں بیان کریں، اور غور کرو تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نیکی سخاوت کی انسان کو اس نظر سے بخشی ہے کہ جو جو انسان موافق احکام اور قوانین اللہ تعالیٰ کے، بیکس اور مصیبت زدہ ہوں، ان کی حیات اور گذارہ کے واسطے اور انسان جن کے قواء درست ہیں کوشش کریں۔ اگر سخاوت انسان میں نہ ہوتی تو حقیقت یہ ہے کہ انسان انسانیت سے خالی ہوتا۔ ہزارہا اشخاص جو کوشش نہیں کر سکتے ہیں بہ سبب نہ ہونے کھانے یا پوشاک کے جہان فانی سے کوچ کرتے اور کسی کو ان کے باب میں کچھ خیال بھی نہ ہوتا۔

اطباء غریبوں اور محتاجوں کی نبض تک بھی نہ دیکھتے اور نہ کوئی اسپتال محتاجوں کے لئے ہوتا۔ بازاروں اور کوچوں میں لاشیں محتاجوں اور فقیروں کی نظر آتیں جو بہ سبب زیادتی بھوک یا نہ ہونے پوشاک کے یا نہ ہونے علاج ان کی بیماری کے مر جاتے۔ یہ دنیا جو کہ باغ کی مانند بذریعہ استعمال اس نیکی بزرگ کے کھلی ہوئی ہے، مانند ایک دوزخ کے نظر آتی ہے، اور انسان چرند اور پرند جانوروں میں کچھ فرق نہیں ہوتا اور چند روز میں خلقت خدا کی برباد ہو جاتی ہے۔ علاوہ اس آرام اور خوشی کے جو بیکسوں وار محتاجوں کو بذریعہ سخاوت کے پہنچتی ہیں۔

ایک فائدہ عظیم یہ ہے کہ سخی آدمی کو عجیب طرح کا سرور حاصل ہوتا ہے کہ وہ نہ تو ناچ دیکھنے سے آتا ہے اور نہ پلاؤ کھانے سے اور نہ شراب پینے سے۔ یہ خوشیاں پائیدار مانند ہوا کے ہیں۔ جب تک ہم ناچ دیکھتے ہیں ہم خوش ہوتے ہیں لیکن انسان ہمیشہ قابل ناچ دیکھنے کے نہیں ہوتا۔ انسان پر ہزار طرح کی مصیبتیں اور تکالیف ہوتی ہیں۔ ان تکلیفات کے وقت ناچ سے سرور نہیں حاصل ہو سکتا ہے، اس وقت پلاؤ بدمزہ معلوم ہوتا ہے اور شراب کڑوی، لیکن جو سرور سخاوت سے حاصل کرتا ہے وہ ہر مصیبت کو خوشی سے سہہ سکے گا کیوں کہ اس کو یہ دلجمعی ہے کہ میں نے موافق مرضی اللہ تعالیٰ کے کام کیا ہے۔ اگر اس کو نہایت سخت بھی بیماری ہو یا وہ نہایت مفلس ہو، اسے کچھ پرواہ نہیں ہوگی کیونکہ اس کا دل قوی ہے اور خیال کرتا ہے کہ بیماری اور مفلسی فقط جسم کو رنج دے سکتی ہے اور چند روز کی ہیں۔ بعد اس کے مجھے اس نیکی کے ثمرہ میں بہت کچھ ملے گا۔

یہ بات تو سب آدمیوں پر روشن ہوگی کہ جس وقت کوئی کار سخاوت کا کوئی آدمی کرتا ہے، اس کو ایک عجیب طرح کی خوشی حاصل ہوتی ہے اور یہ خوشی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بعض مکار یہ کہا کرتے ہیں کہ انسان نمود اور اپنی تعریف بہت چاہتا ہے، اس واسطے اوروں کو دکھلانے کے لیےوہ سخی ہو جاتا ہے۔ اس جائے ہم دو سوال کرتے ہیں۔ اول تو یہ ہے کہ اور شخص کیوں اس کی تعریف کرتے ہیں اور تعریف بھی دلی۔ یہاں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب انسان کے دل پر یہ نقش ہے کہ سخاوت ایک بڑی نیکی ہے اور سخی آدمی لائق تعریف کے ہے۔ علاوہ اس کے اکثر یہ واقع ہوتا ہے کہ بوقت سخاوت کرنے کے سوائے سخی اور اس شخص کے، جس پر سخاوت کی گئی ہے دوسرا آدمی نہیں ہوتا۔ پس اس صورت میں بھی اس شخص کو نہایت خوشی ہوتی ہے۔

اب ہم دریافت کرتے ہیں اس بات کو کہ کون کون اشخاص مستحق سخاوت کے ہیں۔ یعنی وہ کون آدمی ہیں کہ جن کی مدد کرنا ہر انسان پر لازم ہے۔ اب واضح ہو کہ فقط وہ آدمی جو اپنی زندگی کے لئے کوششیں نہیں کر سکتے ہیں، وہی مستحق سخاوت کے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ مستحق سخاوت کے ہیں جن پر یکایک کوئی آفت ناگہانی آجاوے یا ایسے شخص ہیں جو ایک دفعہ کی مدد سے قابل اس بات کے ہو جائیں گے کہ آئندہ کو وہ اپنے گذارے کے واسطے کوشش کر سکیں گے یا وہ آدمی جو ایسی مصیبت میں ہیں کہ وہ فقط اپنی کوشش سے اپنے تئیں اس مصیبت سے خلاص نہیں کر سکتے۔ سوائے ایسے آدمیوں کے اور آدمیوں پر جو اپنی کوشش سے اپنا گذارہ کر سکتے ہیں، سخاوت کرنا فقط بے فائدہ ہی نہیں ہے بلکہ ایک طرح کی خطا ہے اور موجب رنج اور مصیبت خلقت کا ہے۔

اکثر اشخاص اہل ہند کی یہ رائے ہے کہ خواہ کسی شخص پر سخاوت کرو، سخاوت ہر صورت میں مفید اور اچھی ہے۔ واضح ہو کہ یہ ان کی بڑی غلطی ہے۔ ہم نے ابھی بیان کیا ہے کہ علت غائی سخاوت کی پہنچانا آرام اور جہاں تک بنے وہاں تک کم کرنا رنج اور مصیبت خلق خدا کا ہے۔ اب یہ بات صریح ظاہر ہے کہ غیرمستحق کو فائدہ پہنچانا گویا مستحق کو محروم رکھنا ہے۔ کس واسطے اس دنیا میں وہ اشخاص جو مستحق سخاوت کے ہیں یعنی جو اپنی کوشش سے اپنا گذارہ نہیں کر سکتے، تھوڑے سے نہیں ہیں بلکہ بے شمار ہیں۔ پس اس صورت میں یہ بات کوئی سخی نہیں کہہ سکتا کہ میں سب محتاجوں اور مستحقوں پر سخاوت کر چکا۔ اس واسطے میں اب ان آدمیوں کے لئے مدد کرتا ہوں جو محتاج نہیں ہیں یعنی جو اپنے گذارہ کے لئے کوشش کر سکتے ہیں۔

جب یہ حال ہے اس دنیا کا، تو صاف ظاہر ہے کہ اگر کوئی شخص سخاوت بے جا کرے گا، وہ گویا محتاجوں کے استحاق تلف کرتا ہے۔ مثلاً فرض کرو کہ ایک شخص فقط اتنا مقدور رکھا ہے کہ دس روپیہ مہینہ خیرات اور سخاوت میں خرچ کرے۔ اب اسے یہ بات بے جا ہے کہ یہ دس روپیہ بیس آدمیوں ہٹے کٹوں کو دیوے، کہ وہ اگر ذرا بھی محنت کریں تو اپنی قوت گذاری کر سکتے ہیں۔ اسے چاہئے کہ دس بیکسوں کو مثل اندھوں، لنگڑوں لولوں اور کوڑھیوں اور آدمیوں کے جو اپنے گذارے کے واسطے کوشش نہیں کر سکتے دیوے۔ اب اگر کوئی سخی پہلی قسم کے آدمیوں پر سخاوت کرے تو جو مستحق ہیں سخاوت کے، ان کو محروم رکھے گا۔ جو اشخاص محنت کر سکتے ہیں اگر ان کو وہ دس روپیہ نہ دے تو وہ ناچار ہو کر کوشش کریں گے اور اپنا گذارہ کر سکیں گے لیکن وہ بے چارے جن کے قوی درست نہیں وہ بے شک مر جائیں گے۔ اب اس کا عذاب اس شخص پر جس نے سخاوت بے جا کی ہے پڑے گا۔

مرقومہ بالا پر یہاں کے لوگوں کو خصوص اہل ہنود کو نہایت غور کرنا چاہئے کیونکہ اہل ہنود چھانٹ چھانٹ کے ایسے آدمیوں پر سخاوت کرتے ہیں جو ہٹے کٹے ہیں اور جو خوب اچھی طرح سے کوشش کر سکتے ہیں۔ میں نے بچشم خود دیکھا ہے کہ یہاں کے صاحب سرمایہ دار اور مہاجن وغیرہ سیکڑوں سنڈ مسنڈوں کو جو باباجی کھانا کھلاتے ہیں نقدی پیش کرتے ہیں، اگر کوئی دیکھے تو ان فقیروں کے یہ قوی ہوتے ہیں کہ وہ مانند پہلوانوں کے ہوتے ہیں۔ اب ذرا غور کرنا چاہئے کہ ان کاہل وجود اور مفت خوروں کی مدد کرنا محتاجوں کو ان کے استحقاق سے محروم رکھنا ہے۔ اکثر اہل ہنود یہ سمجھتے ہیں کہ ان فقیروں کی دعا سے نجات ہوتی ہے اور خدا خوش ہوتا ہے۔ افسوس ہزار افسوس! کیا ان کی عقل ہے کہ ان جہنمیوں کی دعا خدا کے یہاں قبول ہوگی۔ واضح ہو کہ خدا منصف ہے اور چاہتا ہے کہ مستحق اپنے استحقاق سے کبھی محروم نہ رہے اور جو باعث محروم رکھنے کا ہو اس پر اس کا غضب بے شک آتا ہے۔


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.