حامیان ہندی اور ان کا مغالطہ

حامیان ہندی اور ان کا مغالطہ
by وحید الدین سلیم
319498حامیان ہندی اور ان کا مغالطہوحید الدین سلیم

۱۸ اپریل ۱۹۰۰ء کو جو رزولیوشن گورنمنٹ اضلاع شمال و مغرب اودھ نے عدالتوں میں ناگری حروف کے جاری کرنے کے باب میں نافذ کیا تھا، اس نے صوبہ جاتِ متحدہ کے عام باشندوں میں کچھ کم تہلکہ نہیں ڈالا تھا کہ ۳۰جون ۱۹۰۰ء کے دوسرے رزولیوشن نے جس کا منشا یہ تھا کہ ناگری حروف کے ساتھ ہندی زبان بھی عدالتوں میں جاری کی جائے، پہلے سے بہت زیادہ اضطراب اور ہنگامہ پیدا کر دیا ہے۔

ہماری مراد تہلکہ، اضطراب اور ہنگامہ کے الفاظ سے یہ نہیں ہے کہ عام لوگوں میں گورنمنٹ کی طرف سے کوئی بددلی پائی جاتی ہے یا وہ گورنمنٹ کے خلاف بغاوت کرنے پر آمادہ ہیں۔ نہیں نہیں، ہرگز نہیں۔ ہماری مراد صرف اسی قدر ہے کہ صوبہ جات متحدہ کے وہ تمام باشندے، مذہباً ہندو ہوں یا مسلمان مگر ان کی زبان ایک ہے اور وہ زبان اردو یا ہندوستانی ہے، موجوہ فرماں روا کے ان احکام کو اپنے لیے سخت مضر، اپنی زبان اور لٹریچر کے لیے سخت ہولناک تصور کرتے ہیں۔ ان میں بجائے خاموشی اور سکوت کے ایک عام بے قراری اور بےچینی پائی جاتی ہے اور وہ اس بات پر کمربستہ نظر آتے ہیں کہ موجودہ فرماں روا نے جن غلط واقعات اور کمزور دلائل سے بعجلت یہ امر فیصل کیا ہے، ان کی صحیح واقعات اور مضبوط دلائل سے تردید کی جائے اور اس غلط فہمی کو دور کیا جائے جو ان احکام کے جاری کرنے کے وقت پیدا ہوئی ہے اور ان خطرات سے متنبہ کیا جائے جو آئندہ پیدا ہوں گے۔

اس میں کچھ شک نہیں کہ عام خیالات کا معلوم ہونا گورنمنٹ کے لیے نہایت مفید ہے۔ اگر محکوم قوموں کے دلی خیالات گورنمنٹ کو نہ معلوم ہوں اور وہ بخارات کی طرح اندر ہی اندر گھٹتے رہیں تو ان کا ایک دم سے پھوٹ نکلنا ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ ہم کو فخر ہے کہ ہم ایک ایسی آزاد اور روشن خیال گورنمنٹ کے سایہ میں رہتے ہیں جو ہماری شکایتوں پر کان لگاتی ہے۔ ہماری تکلیفوں کا علاج کرتی ہے۔ ہمارے دلی خیالات کو اندر ہی اند رگھٹنے نہیں دیتی بلکہ وہ تاکید کرتی ہے کہ ہم ان کو کھلم کھلا بیان کریں۔ اگر گورنمنٹ کے احکام کے سمجھنے میں ہم سے کوئی غلط فہمی ہو جائے تو وہ غلط فہمی اسی طریقے سے دور ہو سکتی ہے اور اگر گورنمنٹ سے احکام کے صادر کرنے میں کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو وہ غلطی بھی اسی طرح رفع ہونی ممکن ہے۔ سلطنتِ برطانیہ بلند آواز سے پکارتی ہے کہ اے ہر قوم اور ہر مذہب کے باشندو! تم میری حکومت میں آزاد ہو۔ تم ایک حاکم کے غلط فیصلہ کو دوسرے حاکم کے سامنے پیش کر سکتے ہو جو اس سے بھی بالاتر ہے۔ اور اگر وہ بھی غلطی کرے تو تیسرے حاکم سے رجوع کر سکتے ہو اور اگر تمام حکام کے فیصلوں سے ناراض ہو تو آؤ اس مادرِ مہربان کے سامنے اپنے دلی خیالات ظاہر کرو، جو تم پر اور ان سب پر حکومت کرتی ہے اور جس کا فیصلہ انصاف ہی نہیں بلکہ رحم پر مبنی ہوگا۔

صوبہ جات متحدہ کے عام باشندوں کو، جن کی زبان اردو یا ہندوستانی ہے اور جن میں ہندو اور مسلمان دونوں قوموں کے باشندے شامل ہیں، سخت تعجب اس بات پر ہے کہ ہزآنر نواب لفٹننٹ گورنر اضلاع شمال و مغرب و اودھ نے ۲مارچ ۱۸۹۸ء کو حامیانِ ناگری کے میموریل کے جواب میں جو اسپیچ کی تھی، اس میں انہوں نے تسلیم کیا ہے کہ حامیانِ ناگری اس زبان کو تبدیل کرنا نہیں چاہتے جو عدالتوں میں رائج ہے بلکہ وہ اس خط کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں جس میں وہ زبان لکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ۱۸ اپریل کے رزولیوشن کو نافذ کرنے کے وقت خود نواب ممدوح نے بھی اس امر کا اقرار کیا ہے کہ یہ رزولیوشن ہندی حروف کے عدالتوں میں جاری کرنے سے متعلق ہے۔ ہندی زبان سے اس کو کوئی تعلق نہیں ہے۔ پھر آخر کیا وجہ اس بات کی پیش آئی کہ ۲۱ جون ۱۹۰۰ء کے رزولیوشن میں ہندی زبان اور ناگری حروف دونوں کو عدالتوں میں جاری کرنے کا حکم صادر کیا گیا ہے۔ حالاں کہ اس حکم کا ایک جز میموریل پیش کرنے والوں کی خواہش سے بھی زیادہ ہے۔

دوسرا تعجب حامیانِ اردو یا عام باشندگانِ ملک کو اس بات پر ہے کہ اسی اسپیچ میں ہز آنر نے فرمایا تھا کہ بہ نسبت صوبۂ بہار کے ان اضلاع میں ناگری حروف عدالتوں میں جاری کرنے کے باب میں سخت مشکلات حائل ہیں۔ صوبۂ بہار میں تبدیلی کا زمانہ ہر شخص کے لیے جس کو اس کام سے تعلق تھا، نہایت پریشانی اور دقت کا زمانہ تھا اور یہ تبدیلی سرکاری زندگی کی ایک نسل میں پوری ہوئی تھی۔ جب اس صوبہ میں جہاں مغلوں کی حکومت کا اثر کم تھا، جہاں سرکاری ملازمت میں ہندو بہ نسبت مسلمانوں کے زیادہ ہیں، اس قدر مشکلات پیش آئیں تو خیال کرنا چاہیے کہ ان اضلاع میں ناگری حروف عدالتوں میں جاری کرنے میں کیسی ہولناک مشکلیں پیش آئیں گی۔ اس بات کی کوئی اشد ضرورت نہیں ہے کہ ہم جلدی کریں یا ہم غور و تامل کے ساتھ عمل نہ کریں اور ان شخصوں کے مطالب اور خیالات کا مناسب لحاظ نہ کریں، جو اس تبدیلی کے مخالف ہیں۔

یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ تین سو برس کارواج ایک دن میں موقوف نہیں ہو سکتا۔ ہم کو کوئی ایسی بات جو واقعات کے برخلاف اور تین سوبرس کے رواج کو تہ و بالا کرنے والی ہے، جلدی کے ساتھ نہیں کرنی چاہیے بلکہ جو کچھ کرنا ہے اس کو غور و تامل اور پوری تحقیقات کے بعد کرنا واجب ہے۔ دو برس کا قلیل عرصہ ہوا جب کہ یہ اسپیچ ایک عام مجمع کے سامنے کی گئی تھی۔ اب اس کے خلاف وہ رزولیوشن پاس ہوا ہے جو اس اسپیچ کو بے معنی قرار دیتا ہے اور ہر شخص کو حیرت ہے کہ اگر صوبۂ بہار کی نسبت ان اضلاع میں ناگری حروف کی عدالتوں میں جاری کرنے کے باب میں سخت اور ہولناک مشکلات حائل تھیں تو وہ مشکلات اب کس طرح دور ہو گئیں اور حروف تو ایک طرف، عدالتوں کی زبان بھی نہایت آسانی کے ساتھ کس طرح ایک دم سے تبدیل کر دی گئی۔

کیا اب یہ ثابت ہو گیا کہ یہاں بھی ہندوؤں اور مسلمانوں میں سرکاری ملازمت کے لحاظ سے وہی نسبت ہے جو صوبۂ بہار میں تھی؟ کیا اس اسپیچ کے بعد کسی تاریخ میں ہزآنر نے پڑھ لیا ہے کہ ان اضلاع پر بھی مثل صوبۂ بہار کے مغلوں کی حکومت کا اثر کم ہوا تھا؟ کیا اب کوئی اشد ضرورت غوروکامل کی باقی نہیں رہی؟ کیا اس بات کی کوئی حاجت نہیں رہی کہ ان شخصوں کے مطالب اور خیالات کا مناسب لحاظ کیا جائے جو اس تبدیلی کے مخالف ہیں؟ کیا ایسے ناگہانی واقعات پیش آ گئے ہیں جو تین سو برس کے رواج کو ایک دم سے الٹ دینے پر مجبور کر رہے ہیں؟ کیا اس تہلکہ میں ڈالنے والے رزولیوشن کے جاری کرنے سے پیشتر کامل تحقیقات کر لی گئی ہے کہ عام باشندگانِ ملک کے خیالات اس تبدیلی کی نسبت کیا ہیں اور اس تبدیلی کا عام حالاتِ ملک پر کیا اثر ہوگا؟

اکثر باشندگانِ ملک کا، جن میں ہندو اور مسلمان دونوں شامل ہیں اور جو اردو یا ہندوستانی زبان تحریر اور تقریر میں عام طور سے استعمال کرتے ہیں، یہ خیال ہے، ہزآنر نے ان خیالات کو جو اسپیچ میں ظاہر کیے گئے تھے، غالباًبلا کسی کافی وجہ کے یکایک تبدیل کر دیا ہے اور نہایت عجلت کے ساتھ بلاکسی کامل تحقیقات یا غوروتامل کے فیصلہ صادر فرمایا ہے۔ یہ افسوس ناک خیال عام اور خاص طبقوں میں پھیلتا جاتا ہے مگر بعض لوگوں کا خیال یہ بھی ہے کہ ہزآنر کی نیت معدلت گستری اور انصاف پرستی کے سوا کچھ نہ تھی۔ یہ ملک کی بدقسمتی ہے کہ اس نیک نیتی پر ان کے قلم سے ایسے احکام صادر ہوئے جو اہل ملک کے لیے مضرت رساں ہیں۔ اگرچہ انہوں نے عام باشندگانِ ملک یا حامیانِ اردو کے خیالات اور دلائل و واقعات سننے کی تکلیف گوارہ نہیں فرمائی، تاہم بجائے خود غور و تامل کے ساتھ تحقیق کرکے کچھ اعداد ضرور جمع کر لیے ہیں۔ جو افسوس ہے کہ ان کے صادر کردہ رزولیوشن کی تائید میں دلائل نہیں ہو سکتے۔

یہی سبب ہے کہ تمام ملک میں ہر طرف سے یہ صدا آرہی ہے کہ یہ رزولیوشن ملک کی عام زبان اور عام لٹریچر کے لیے، محتلف گروہوں اور فرقوں کے عام اتحاد و ہم دردی کے لیے، اہل ملک کی دماغی اور ذہنی ترقی اور نشوونما کے لیے، عدالتوں اور محکموں سے تعلق رکھنے والے باشندوں کے لیے سخت ہولناک اور مضرت رساں ہے۔ ہم اس موقع پر ان قوی سے قوی دلائل کا ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جو اس رزولیوشن کی تائید میں بیان کی گئی ہیں اور ان دلائل کو پیش کرنا بھی اپنا فرض جانتے ہیں جو اس رزولیوشن کے خلاف عام باشندگانِ ملک ی طرف سے ظاہر کی جاتی ہیں۔

سب سے قوی دلیل جو ہندی کی تائید میں بیان کی جاتی ہے اور جس کو ہزآنر نے بھی اپنی اسپیچ میں بیان کیا ہے، یہ ہے کہ ڈاکٹر گریریسن نے جو ہندوستان کی زبانوں کی تحقیقات پر گورنمنٹ کی طرف سے مامور ہوئے تھے، صوبہ جاتِ متحدہ کے چار کروڑ پچاس لاکھ باشندوں کی زبان ہندی یا ہندی کی کوئی شاخ قرار دی ہے۔ حامیانِ ہندی اس قول کو مستند مان کر دعویٰ کرتے ہیں کہ جب چار کروڑ ستر لاکھ باشندوں میں سے چار کروڑ پچاس لاکھ باشندے ہندی زبان بولتے ہیں تو گورنمنٹ کے محکموں اور عدالتوں میں ہندی زبان ہونے سے صوبہ جاتِ متحدہ کے بہت بڑی تعداد کے باشندوں کو فائدہ پہنچےگا۔ یہ دلیل ہمارے نزدیک نہایت کمزور اور سخت غلطی پر مبنی ہے۔ ہمارے نزدیک صوبہ جاتِ متحدہ کی عام زبان ہندوستانی ہے اور اس کی دو ممتاز شکلیں ہیں، جن کا نام اردو اور ہندی ہے۔ اردو وہ ہندوستانی ہے جو شائستہ اور تعلیم یافتہ اور شہری باشندوں کی زبان ہے اور ہندی وہ ہندوستانی ہے جو جاہل اور ناتربیت یافتہ اور دہقانی گروہوں میں بولی جاتی ہے۔ ہندی کی نو شاخیں ہیں۔ جن کے نام حسب ذیل ہیں۔

(۱) برج بھاشا۔
(۲) کوسلی
(۳) قنوجی
(۴) تاہرو
(۵) بھوگسا
(۶) بیسواری
(۷) بھوجپوری
(۸) بندھیلی
(۹) بگھیلی

یہ بولیاں مختلف اضلاع میں بولی جاتی ہیں۔ جو شخص فلالوجی (علم اللسان) کے اصولوں سے آگاہ ہے، وہ یہ جانتا ہے کہ ان بولیوں میں سے کوئی بولی مستقل زبان نہیں ہو سکتی، جو اردو سے علیحدہ کوئی زبان قرار دی جائے۔ ایک بولی کو دوسری بولی سے جدا اور مستقل قرار دینے کا اصول یہ ہے کہ دونوں بولیوں کی صرف و نحو پر غوروتامل کی نظر ڈال کر دیکھا جائے کہ آیا دونوں کی صرف و نحو میں کوئی بین فرق ہے یا نہیں۔ اگر کوئی بین فرق پایا جائے تو ان کو جدا جدا اور مستقل زبانیں تسلیم کرنا چاہیے، ورنہ دونوں میں سے ایک کو دوسری بولی کی شاخ یا دونوں کو کسی اور بولی کی شاخ قرار دینا چاہیے۔ مثلاً اس انگریزی میں جو لندن میں بولی جاتی ہے اور ان بولیوں میں جو انگلش چینل کے جزیروں یا انگلستان کی کونٹیوں میں بولی جاتی ہیں، گرامر کا کوئی بین فرق نہیں ہے۔ اس لیے ان کو کوئی مستقل زبانیں قرار نہیں دے سکتا بلکہ ان کو عام انگریزی زبان کی شاخیں کہا جاتا ہے۔

انگریزی میں عام زبان کو لنگوج اور اس کی بولیوں کو ڈائی لکٹ کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے ہندوستانی ایک لنگوج یعنی مستقل زبان ہے اور اردو اور ہندی اس کی دو شکلیں ہیں، جن میں سے ایک اعلیٰ اور مہذبانہ اور دوسری ادنی اور وحشیانہ شکل ہے اور ہندی کی نو شاخیں جن کا نام ہم لکھ چکے ہیں، علیحدہ اور مستقل زبانیں نہیں ہیں بلکہ وہ عام زبان ہندوستانی کی شاخیں یا بولیاں یا ڈائی لکٹ ہیں۔ اردو زبان اور ہندی کی بولیوں میں صرف و نحو کاکوئی بین فرق نہیں ہے۔ اردو کے افعال و روابط وہی ہیں جو ہندی کے ہیں اور جس طرح اردو میں مختلف زبانوں کے الفاظ شامل ہیں، اسی طرح ہندی بھی مختلف زبانوں کے الفاظ سے مرکب ہے۔ اردو اور ہندی میں اگر کوئی فرق ہے تو صرف اس قدر ہے کہ اردو کے بولنے والے شائستہ اور تعلیم یافتہ اور شہری باشندے ہیں، اس لیے اس میں فارسی اور عربی الفاظ کی زیادہ آمیزش ہے، برخلاف اس کے ہندی کے بولنے والے دیہات کے باشندے اور اکثر ناتربیت یافتہ اور جاہل ہیں، اس لیے کہ اس میں عربی اور فارسی الفاظ کی آمیزش زیادہ نہیں ہے۔

پس ہندی مع اپنی شاخوں کے نہ کوئی مستقل زبان ہے، نہ اس کی صرف و نحو اردو کی صرف و نحو سے جداگانہ ہے، نہ اس میں اردو کی طرح کوئی مستقل لٹریچر ہے۔ یہ اس ہندی کاذکر ہے جس پر ڈاکٹر گریریسن نے بحث کی ہے اور جس کے بولنے والوں کی تعداد (۴۵) ملین بتائی گئی ہے۔ مگر وہ ہندی جس کو ہز آنر عدالتوں میں جاری کرنا چاہتے ہیں، اس رائج ہندی سے بالکل جدا ہے۔ اس کے بولنے والوں کی آبادی صوبہ جاتِ متحدہ کے کسی حصہ میں نہیں ہے۔ نہ کبھی اس کے بولنے والے کسی خطہ میں موجود تھے۔ وہ ایک مصنوعی زبان ہے، جس کا صرف کتابوں میں استعمال ہوا ہے۔ اس کو کوئی شخص جو اس صوبہ کا باشندہ ہو، نہ بولتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے۔ بیانِ بالا سے صاف طور پر ظاہر ہو گیا کہ صوبہ جاتِ متحدہ کی عام زبان ایک ہی ہے جس کا اصلی نام ہندوستانی ہے۔ اگر اس کے اعلیٰ حصہ یعنی لٹریچر کی طرف خیال کیا جائے تو اس لحاظ سے اس کو اردو کہہ سکتے ہیں اور اگر اس کے ادنی حصہ یعنی ناتربیت یافتہ گروہ کی عام بولی پر لحاظ کیا جائے تو اسی کو ہندی بھی کہہ سکتے ہیں۔

پس ہندوستانی، اردو اور ہندی کے الفاظ سے جدا جدا زبانیں مراد نہیں ہیں بلکہ صرف ایک ہی زبان مراد ہے، جس کی مختلف حالتوں پر لحاظ کرنے سے مختلف نام رکھ لیے گئے ہیں۔ اگر اس زبان کی اعلیٰ حالت کا لحاظ کیا جائے یعنی یہ خیال کیا جائے کہ اس میں اظہارِ خیالات کی قوت ہے اور ادائے مطلب کی قابلیت ہے تو سوائے اردو کے ہندوستانی کی کوئی فارم (جس میں ہندی مع اپنی نوشاخوں کے شامل ہے اور جس میں کوئی لٹریچر نہیں ہے) اس قابل نہیں ہے کہ اس کو قانونی یا علمی زبان تسلیم کیا جائے۔ اگر ہندی کی شاخوں میں سے جو فی الحقیقت ہندوستانی زبان کے ادنی درجہ کی بولیاں ہیں، کوئی شاخ اس غرض کے لیے منتخب کی جائے تو دوسری شاخوں کو بھی وہی حق حاصل ہوگا جو اس شاخ کو ہے۔ اور اگر مختلف اضلاع کی عدالتوں میں اِن ادنی بولیوں کو جاری کر دیا جائے تو سوائے دقتوں اور پیچیدگیوں کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بالفرض اگر انگلستان کی کونٹیوں میں جو عدالتیں ہیں، ان میں کونٹیوں کی بولیاں جو انگریزی زبان کی ادنی درجہ کی شاخیں ہیں۔ جاری کر دی جائیں تو کیا ایسا کرنا حماقت پر مبنی نہ ہوگا۔

اس تمام بیان کا نتیجہ یہ ہے کہ عدالتوں کی زبان ایک ہونی چاہئے اور وہ عام زبان ہو، جس کے ذیل میں مختلف ادنی درجے کی بولیاں آ جائیں اور وہ عام زبان ان صوبہ جات کے لیے اردو یا ہندوستانی ہی ہو سکتی ہے۔ اسی عام زبان کے بولنے والے (۴۵) ملین باشندے ہیں اور اسی کو بلحاظ اس کی ادنی درجہ کی شاخوں کے ہندی کہا جاتا ہے۔ پس جب یہ ثابت ہو گیا کہ صوبہ جاتِ متحدہ کی کوئی بولی جس کو ہندی کہا جاتا ہے اور جو کسی رقبہ میں بولی جاتی ہے، اردو یا ہندوستانی زبان سے کوئی جدا اور مستقل زبان نہیں ہے تو یہ کہنا کہ چار کروڑ پچاس لاکھ باشندوں کی زبان ہندی یا ہندی کی کوئی شاخ ہے، حامیانِ اردو کے دعوے کے لیے بہت بڑی تائید ہے اور اس دلیل سے حامیانِ ہندی کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

ہم بیان کر چکے ہیں کہ جو ہندی انگریزوں کے نزدیک مستند اور ہندی گرامر کے روسے ٹھیک ہندی ہے اور جس کو ہزآنر عدالتوں میں جاری کرنا چاہتے ہیں، اس سے ہندوستانی کے لوگ محض ناآشنا ہیں۔ نہ وہ کسی خطہ میں بولی جاتی ہے نہ سمجھی جاتی ہے۔ اس کو عدالتوں میں جاری کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ قدیم انگلو سکسن کو انگلستان کی عدالتوں میں جاری کرنا۔ یا لاطینی زبان کو ملک اٹلی کے سرکاری دفتروں میں رائج کرنا یا افلاطون اور سقراط کی یونانی کو یونان کے موجودہ محکموں کی زبان قرار دینا۔ عدالتوں میں اس ہندی کے جاری کرنے سے گو ہزآنر کے نزدیک (۴۵) ملین باشندے مستفید ہوں گے مگر ہمارے نزدیک اس سے فائدہ حاصل کرنے والے وہی لوگ ہوں گے جو منو کے دھرم شاستروں کو اس کی اصلی زبان میں پڑھ سکتے ہیں۔

حامیانِ اردو اپنے مخالفوں کی مذکورہ بالا دلیل کے مقابلہ میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اردو زبان سے زیادہ کوئی زبان اس صوبہ میں عام طور پر مستعمل نہیں اور اس کی دلیل وہ یہ بیان کرتے ہیں کہ اگر صوبہ جاتِ متحدہ کے ڈا ک خانوں میں تحقیقات کی جائے تو معلوم ہو جائےگا کہ سب سے زیادہ تعداد کے خط جس زبان میں ڈاک پر روانہ ہوتے ہیں، وہ اردو یا ہندوستانی کے سوا کوئی زبان نہیں ہے۔ اسی طرح اگر مطابع کی فہرستوں کو ٹٹولا جائے تو سب سے زیادہ تعداد کی کتابیں اسی زبان میں ملیں گی۔ اخبارات اور رسالے اسی زبان میں سب سے زیادہ تعداد کے چھاپے جاتے ہیں۔ ہنود کی مذہبی کتابوں مہابھارت، رامائن، ویدوں اور شاستروں وغیرہ کا اس زبان میں ترجمہ ہو جانا اس بات کی بہت بڑی دلیل ہے کہ یہ زبان مسلمانوں کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ ہندو بھی اسی زبان کو اپنی مادری زبان تصور کرتے ہیں اور اس میں علوم عامہ کے علاوہ اپنی دینیات کو بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ علاوہ ان ترجموں کے ہندو قوم کے بڑے بڑے لائق تعلیم یافتہ اور روشن ضمیر لوگ اوریجنل تصنیفات بھی اسی زبان میں کرتے ہیں اور اس زبان کے بہت سے مشہور مصنف اور ناولسٹ اس قوم میں موجود ہیں۔

اضلاع شمال و مغرب و اودھ ہی میں یہ زبان علمی مقاصد کے لیے مستعمل نہیں ہے بلکہ اس زبان کے اخبارات، رسالے اور کتابیں پنجاب، بہار، بنگال، بمبئی، مدراس، حیدرآباد اور دیگر ریاستہائے ہندوستان سے شائع ہوتی ہیں اور اگر ہندوستان کے ایک خطہ کا باشندہ دوسرے خطہ کے باشندے سے گفتگو کرنا چاہے تو دونوں اپنا مافی الضمیر اسی زبان میں ادا کر سکتے ہیں اور اس زبان کے سوا ہندوستان کی کسی اور زبان سے یہ مطلب حاصل نہیں ہو سکتا۔ اسی سبب سے تمام ہندوستان میں اس زبان کو وہی رتبہ حاصل ہے جو فرانسیسی زبان کو تمام یورپ میں اور جس طرح فرنچ کو یورپ کی لنگوافر نکا کہا جاتا ہے، اسی طرح یہ زبان اور صرف یہی زبان ہندوستان کی لنگوا فرنکا کہلاتی ہے۔

حامیان ہندی کی طرف سے ایک اور زبردست دلیل ہندی زبان کی حمایت میں پیش کی جاتی ہے اور وہ یہ ہے کہ بنگال، مدراس، بمبئی، مملک متوسط اور صوبۂ بہار میں بہ نسبت پنجاب اور صوبہ جات متحدہ کی ابتدائی تعلیم کو اس سبب سے زیادہ ترقی ہوئی ہے کہ ان صوبوں میں وہاں کی دیسی زبانیں اسکولوں میں جاری نہیں۔ چوں کہ پنجاب اور صوبہ جات متحدہ میں ان صوبوں کی دیسی زبانوں میں تعلیم دی جاتی ہے، اس سبب سے ابتدائی تعلیم کو بہ نسبت دیگر صوبہ جات مذکورۂ بالا کے زیادہ ترقی ہوئی ہے۔ ہمارے نزدیک یہ دلیل بھی سخت مغالطہ پر مبنی ہے۔

حامیانِ ہندی نے جو اعداد ابتدائی تعلیم کی نسبت صوبہ جاتِ ہندوستان میں دکھانے کے لیے پیش کیے ہیں، ہم انہیں اعداد کو پیش نظر رکھ کر ان سے یہ سوال کرتے ہیں کہ مدراس میں بہ نسبت صوبۂ بمبئی کے ابتدائی تعلیم سہ چند سے زیادہ کیوں ترقی کر گئی ہے؟ اسی طرح بنگال کی نسبت بھی ہم سوال کرتے ہیں کہ بہ نسبت صوبہ بمبئی کے اس صوبہ میں ابتدائی تعلیم آٹھ گنی کے قریب کیوں ہے؟ اگر اس سوال کے جواب میں کوئی سبب بتانا ممکن ہے تو وہی سبب ہماری طرف سے صوبہ جاتِ متحدہ اور پنجاب میں ابتدائی تعلیم کے نسبتاً کم ترقی کرنے کا ہوگا۔ پس جو دلیل حامیانِ ہندی نے پیش کی ہے اس سے یہ ثابت کرنا ناممکن ہے کہ وہ علمی ہندی جس کو وہ اسکولوں یا عدالتوں میں جاری کرنا چاہتے ہیں، صوبہ جات متحدہ کی دیسی زبان ہے اور اس کے اسکولوں میں جاری نہ ہونے سے ابتدائی تعلیم کی رفتار اِن صوبہ جات میں بہ نسبت دیگر صوبہ جات کے سست ہے۔

مذکورہ بالا دو دلیلیں جو ہم نے بیان کیں، وہ حامیانِ ہندی کے نزدیک سب سے قوی اور مضبوط دلیلیں ہیں۔ اور ان سے وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ صوبہ جات متحدہ کی آبادی کا کثیر حصہ ہندی زبان اور ہندی خط کو استعمال کرتا ہے اور اگر اس زبان اور اس خط کو عدالتوں اور اسکولوں میں جاری کر دیا جائے تو عدالتی کاروبار میں ترقی ہوگی اور ابتدائی تعلیم کی رفتار تیز ہو جائےگی۔ مگر ہم ثابت کرچکے ہیں کہ دونوں دلیلیں سخت مغالطہ پر مبنی ہیں۔ جو ہندی کثیر حصہ آبادی کی زبان بتائی جاتی ہے، وہ ہندوستانی اور اردو کے ساتھ ہم معنی ہے اور اس سے جدا ہوکر وہ کوئی مستقل زبان شمار نہیں ہو سکتی۔ اور جس ہندی کو وہ عدالتوں میں جاری کرنا چاہتے ہیں، وہ ایک مردہ زبان ہے اور صرف کتابوں میں مستعمل ہوتی ہے اور اس کے استعمال کرنے والے اس قدر نہیں ہیں، جن کی تعداد پر (۴۵) ملین کا لفظ صادق آ سکے اور اس کے بولنے والے تو ہندوستان بھر کے کسی صوبہ میں موجود نہیں ہیں۔

یہی علمی ہندی اسکولوں میں بھی اس نظر سے جاری کرائی جاتی ہے کہ وہ عام باشندوں کی زبان ہے اور اس کے جاری کرنے سے ابتدائی تعلیم کو ترقی ہوگی اور اس کے تعلیم میں رائج نہ ہونے سے ابتدائی تعلیم کی رفتار بہ نسبت دیگر صوبہ جات کے بہت سست ہے، صاف ظاہر ہے کہ جب علمی ہندی اس صوبہ کے باشندوں کی زبان نہیں ہے اور اس کے بولنے والے ان صوبہ جات میں موجود نہیں ہیں تو اس کے اسکولوں میں جاری کرنے سے کوئی عمدہ نتیجہ برآمد نہیں ہو سکتا۔ اور یہ ایک مغالطہ ہے جس کی مثال منطق میں دی گئی ہے۔ یعنی دعوے اور دلیل میں ایک ہی لفظ استعمال کرنا اور جو معنی اس لفظ کے دعوے میں لیے گئے ہیں، اس کے برخلاف دلیل میں دوسرے معنی مراد لینا۔ ممکن ہے کہ ہزآنر اس مغالطہ کو نہ سمجھیں۔ مگر یہ ممکن نہیں ہے کہ ہرشخص اسی طرح غلطی کرے جس طرح کہ ہزآنر نے کی ہے۔

صوبہ جات متحدہ کی زیادہ حصہ آبادی کی ہندی زبان قرار دینے پر ان دلائل سے زیادہ کوئی اور مضبوط دلیل، جو حامیانِ ہندی نے پیش کی ہو، ہماری نظر سے نہیں گزری، البتہ اردو خط پر بعض اعتراض کیے گئے ہیں اور ناگری خط کی بہت سی خوبیاں چمکاکر دکھائی گئی ہیں۔ مگر وہ اعتراض نہایت بودے اور کمزور ہیں اور بارہا ان کا دنداں شکن جواب حامیانِ اردو کی طرف سے دیا گیا ہے اور ناگری خط پر بھی علمائے یورپ ہی کے اعتراض پیش کیے گئے ہیں۔ ہمارے نزدیک خط کی بحث اس حالت میں محض بے سود ہے جب کہ ایک زندہ اور مردہ زبان کی نسبت بحث ہو۔ اردو ایک زندہ زبان ہے، اس لیے اس کا خط بھی زندہ ہے۔ ہندی زبان سینکڑوں برس سے مردہ ہو چکی ہے اور اس کا خط بھی مردہ خطوں میں شامل ہے۔ جب کہ عدالتوں اور اسکولوں میں وہی زبان جاری کرنی انسب ہے، جس کو فی الحقیقت بہت سے لوگ عام مقاصد اور علمی مقاصد میں استعمال کرتے ہیں تو اردو زبان کے سوا کوئی زبان اس قابل نہیں ہے اور وہ ایک زندہ زبان اور تحریر و تقریر میں کثرت کے ساتھ مستعمل ہے۔

اس کے خط پر کوئی اعتراض کرنا اور اس اعتراض کا کوئی جواب دینا خارج ازبحث ہے۔ جو زبان زندہ ہے، اس کا خط کیسا ہی مشکل اور کیسا ہی ناقص ہو، اس کی جگہ کوئی مردہ زبان نہیں لے سکتی۔ نہ اس کے خط کی جگہ کسی مردہ خط کو، اگرچہ وہ کیسا ہی موزوں اور مکمل ہو، جاری کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا کرنا ممکن ہے اور اگر ایسا کرنا بہبودی عوام کے لیے مناسب ہے تو کیا وجہ اس بات کی ہے کہ یورپین زبانوں کی طرز تحریر میں جو دشواریاں ہیں اور جن کو تمام علمائے یورپ تسلیم کرتے ہیں، ان کو دور کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی اور ان زبانوں کی جگہ ممالک یورپ کی عدالتوں اور اسکولوں میں کوئی مکمل زبان اور ان کے خطوط کی جگہ کوئی مکمل خط تجویز نہیں کیا جاتا۔ حامیانِ اردو کے نزدیک صوبہ جات متحدہ میں ایسی زبان کے استعمال کا حکم دینا جو مردہ اور متروک ہو چکی ہے اور ایسے خط کے جاری کرنے کا رزولیوشن نافذ کرنا جو عام طور سے مستعمل نہیں ہے، عام باشندوں کی بہبودی و آسائش کے بالکل برخلاف ہے۔

جب ہم سنتے ہیں کہ اس رزولیوشن سے ہزآنر کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان نفاق پھیلانا اور دائمی جنگ و جدل قایم کرنا مقصود ہے اور بجائے ایک متحدہ اور مشترک لٹریچر کے دو مختلف لٹریچر پیدا کرنے منظور ہیں، جن میں سے کوئی بھی ترقی نہیں کرےگا تو ہم کو سخت افسوس ہوتا ہے۔ ہم عوام الناس کے ہم زبان نہیں ہیں مگر یہ ضرور سمجھتے ہیں اور ایسا سمجھنے کی وجہ رکھتے ہیں کہ نتیجہ اس ہولناک رزولیوشن کا وہی ہوگا جو بیان کیا جاتا ہے۔ یہ رزولیوشن بے شک مسلمانوں اور ہندوؤں کے اتحاد کو برباد کرنے والا، ان کے مشترک لٹریچر کو ملیامیٹ کرنے والا اور معاملاتِ عدالت میں خلط مبحث پیدا کرنے والا ہے۔ اگر اس رزولیوشن کو ہزآنر منسوخ کریں گے اور اس قدیم پالیسی کو قایم رہنے دیں گے جو رعایا کے مختلف ریجنس فرقوں کے درمیان ہمدردی پیدا کرنے والی ہے، تو یہ ہزآنر کے عہدِ حکومت کی ایک یادگار ہوگی۔ ورنہ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ یہ رزولیوشن ہمیشہ اس وقت کو یاد دلاتا رہےگا جب کہ ہزآنر مثل ایک معمولی انسان کے مغالطہ میں آ گئے اور ایسی غلطی کر بیٹھے جس کا تدارک بہت مشکل ہے۔


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.