295262حب وطنالطاف حسین حالی

اے سپہر بریں کے سیارو
اے فضائے زمیں کے گل زارو
اے پہاڑوں کی دل فریب فضا
اے لب جو کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا
اے عنادل کے نغمۂ سحری
اے شب ماہتاب تاروں بھری
اے نسیم بہار کے جھونکو
دہر ناپائیدار کے دھوکو
تم ہر اک حال میں ہو یوں تو عزیز
تھے وطن میں مگر کچھ اور ہی چیز
جب وطن میں ہمارا تھا رمنا
تم سے دل باغ باغ تھا اپنا
تم مری دل لگی کے ساماں تھے
تم مرے درد دل کے درماں تھے
تم سے کٹتا تھا رنج تنہائی
تم سے پاتا تھا دل شکیبائی
آن اک اک تمہاری بھاتی تھی
جو ادا تھی وہ جی لبھاتی تھی
کرتے تھے جب تم اپنی غم خواری
دھوئی جاتی تھیں کلفتیں ساری
جب ہوا کھانے باغ جاتے تھے
ہو کے خوش حال گھر میں آتے تھے
بیٹھ جاتے تھے جب کبھی لب آب
دھو کے اٹھتے تھے دل کے داغ شتاب
کوہ و صحرا و آسمان و زمیں
سب مری دل لگی کی شکلیں تھیں
پر چھٹا جس سے اپنا ملک و دیار
جی ہوا تم سے خود بہ خود بیزار
نہ گلوں کی ادا خوش آتی ہے
نہ صدا بلبلوں کی بھاتی ہے
سیر گلشن ہے جی کا اک جنجال
شب مہتاب جان کو ہے وبال
کوہ و صحرا سے تا لب دریا
جس طرف جائیں جی نہیں لگتا
کیا ہوئے وہ دن اور وہ راتیں
تم میں اگلی سی اب نہیں باتیں
ہم ہی غربت میں ہو گئے کچھ اور
یا تمہارے بدل گئے کچھ طور
گو وہی ہم ہیں اور وہی دنیا
پر نہیں ہم کو لطف دنیا کا
اے وطن اے مرے بہشت بریں
کیا ہوئے تیرے آسمان و زمیں
رات اور دن کا وہ سماں نہ رہا
وہ زمیں اور وہ آسماں نہ رہا
تیری دوری ہے مورد آلام
تیرے چھٹنے سے چھٹ گیا آرام
کاٹے کھاتا ہے باغ بن تیرے
گل ہیں نظروں میں داغ بن تیرے
مٹ گیا نقش کامرانی کا
تجھ سے تھا لطف زندگانی کا
جو کہ رہتے ہیں تجھ سے دور سدا
ان کو کیا ہوگا زندگی کا مزا
ہو گیا یاں تو دو ہی دن میں یہ حال
تجھ بن ایک ایک پل ہے اک اک سال
سچ بتا تو سبھی کو بھاتا ہے
یا کہ مجھ سے ہی تیرا ناتا ہے
میں ہی کرتا ہوں تجھ پہ جان نثار
یا کہ دنیا ہے تیری عاشق زار
کیا زمانے کو تو عزیز نہیں
اے وطن تو تو ایسی چیز نہیں
جن و انسان کی حیات ہے تو
مرغ و ماہی کی کائنات ہے تو
ہے نباتات کا نمو تجھ سے
روکھ تجھ بن ہرے نہیں ہوتے
سب کو ہوتا ہے تجھ سے نشو و نما
سب کو بھاتی ہے تیری آب و ہوا
تیری اک مشت خاک کے بدلے
لوں نہ ہرگز اگر بہشت ملے
جان جب تک نہ ہو بدن سے جدا
کوئی دشمن نہ ہو وطن سے ہوا
حملہ جب قوم آریا نے کیا
اور بجا ان کا ہند میں ڈنکا
ملک والے بہت سے کام آئے
جو بچے وہ غلام کہلائے
شدر کہلائے راکشس کہلائے
رنج پردیس کے مگر نہ اٹھائے
گو غلامی کا لگ گیا دھبہ
نہ چھٹا ان سے دیس پر نہ چھٹا
قدر اے دل وطن میں رہنے کی
پوچھے پردیسیوں کے جی سے کوئی
جب ملا رام چندر کو بن باس
اور نکلا وطن سے ہو کے اداس
باپ کا حکم رکھ لیا سر پر
پر چلا ساتھ لے کے داغ جگر
پاؤں اٹھتا تھا اس کا بن کی طرف
اور کھنچتا تھا دل وطن کی طرف
گزرے غربت میں اس قدر مہ و سال
پر نہ بھولا ایودھیا کا خیال
دیس کو بن میں جی بھٹکتا رہا
دل میں کانٹا سا اک کھٹکتا رہا
تیر اک دل میں آ کے لگتا تھا
آتی تھی جب ایودھیا کی ہوا
کٹنے چودہ برس ہوئے تھے محال
گویا ایک ایک جگ تھا ایک اک سال
ہوئے یثرب کی سمت جب راہی
سید ابطحیٰ کے ہم راہی
رشتے الفت کے سارے توڑ چلے
اور بالکل وطن کو چھوڑ چلے
گو وطن سے چلے تھے ہو کے خفا
پر وطن میں تھا سب کا جی اٹکا
دل لگی کے بہت ملے سامان
پر نہ بھولے وطن کے ریگستان
دل میں آٹھوں پہر کھٹکتے تھے
سنگریزے زمین بطحا کے
گھر جفاؤں سے جن کی چھوٹا تھا
دل سے رشتہ نہ ان کا ٹوٹا تھا
ہوئیں یوسف کی سختیاں جب دور
اور ہوا ملک مصر پر مامور
مصر میں چار سو تھا حکم رواں
آنکھ تھی جانب وطن نگراں
یاد کنعاں جب اس کو آتی تھی
سلطنت ساری بھول جاتی تھی
دکھ اٹھائے تھے جس وطن میں سخت
تاج بھاتا نہ اس بغیر نہ تخت
جن سے دیکھی تھی سخت بے مہری
لو تھی ان بھائیوں کی دل کو لگی
ہم بھی حب وطن میں ہیں گو غرق
ہم میں اور ان میں ہے مگر یہ فرق
ہم ہیں نام وطن کے دیوانے
وہ تھے اہل وطن کے پروانے
جس نے یوسف کی داستاں ہے سنی
جانتا ہوگا روئداد اس کی
مصر میں قحط جب پڑا آ کر
اور ہوئی قوم بھوک سے مضطر
کر دیا وقف ان پہ بیت المال
لب تک آنے دیا نہ حرف سوال
کھتیاں اور کوٹھے کھول دیے
مفت سارے ذخیرے تول دیے
قافلے خالی ہاتھ آتے تھے
اور بھرپور یاں سے جاتے تھے
یوں گئے قحط کے وہ سال گزر
جیسے بچوں کی بھوک وقت سحر
اے دل اے بندۂ وطن ہوشیار
خواب غفلت سے ہو ذرا بیدار
او شراب خودی کے متوالے
گھر کی چوکھٹ کے چومنے والے
نام ہے کیا اسی کا حب وطن
جس کی تجھ کو لگی ہوئی ہے لگن
کبھی بچوں کا دھیان آتا ہے
کبھی یاروں کا غم ستاتا ہے
یاد آتا ہے اپنا شہر کبھی
لو کبھی اہل شہر کی ہے لگی
نقش ہیں دل پہ کوچہ و بازار
پھرتے آنکھوں میں ہیں در و دیوار
کیا وطن کیا یہی محبت ہے
یہ بھی الفت میں کوئی الفت ہے
اس میں انساں سے کم نہیں ہیں درند
اس سے خالی نہیں چرند و پرند
ٹکڑے ہوتے ہیں سنگ غربت میں
سوکھ جاتے ہیں روکھ فرقت میں
جا کے کابل میں آم کا پودا
کبھی پروان چڑھ نہیں سکتا
آ کے کابل سے یاں بہی و انار
ہو نہیں سکتے بارور زنہار
مچھلی جب چھوٹتی ہے پانی سے
ہاتھ دھوتی ہے زندگانی سے
آگ سے جب ہوا سمندر دور
اس کو جینے کا پھر نہیں مقدور
گھوڑے جب کھیت سے بچھڑتے ہیں
جان کے لالے ان کے پڑتے ہیں
گائے، بھینس اونٹ ہو یا بکری
اپنے اپنے ٹھکانے خوش ہیں سبھی
کہیے حب وطن اسی کو اگر
ہم سے حیواں نہیں ہیں کچھ کم تر
ہے کوئی اپنی قوم کا ہمدرد
نوع انساں کا سمجھیں جس کو فرد
جس پہ اطلاق آدمی ہو صحیح
جس کو حیواں پہ دے سکیں ترجیح
قوم پر کوئی زد نہ دیکھ سکے
قوم کا حال بد نہ دیکھ سکے
قوم سے جان تک عزیز نہ ہو
قوم سے بڑھ کے کوئی چیز نہ ہو
سمجھے ان کی خوشی کو راحت جاں
واں جو نو روز ہو تو عید ہو یاں
رنج کو ان کے سمجھے مایۂ غم
واں اگر سوگ ہو تو یاں ماتم
بھول جائے سب اپنی قدر جلیل
دیکھ کر بھائیوں کو خوار و ذلیل
جب پڑے ان پہ گردش افلاک
اپنی آسائشوں پہ ڈال دے خاک
بیٹھے بے فکر کیا ہو ہم وطنو
اٹھو اہل وطن کے دوست بنو
مرد ہو تم کسی کے کام آؤ
ورنہ کھاؤ پیو چلے جاؤ
جب کوئی زندگی کا لطف اٹھاؤ
دل کو دکھ بھائیوں کے یاد دلاؤ
پہنو جب کوئی عمدہ تم پوشاک
کرو دامن سے تا گریباں چاک
کھانا کھاؤ تو جی میں تم شرماؤ
ٹھنڈا پانی پیو تو اشک بہاؤ
کتنے بھائی تمہارے ہیں نادار
زندگی سے ہے جن کا دل بیزار
نوکروں کی تمہارے جو ہے غذا
ان کو وہ خواب میں نہیں ملتا
جس پہ تم جوتیوں سے پھرتے ہو
واں میسر نہیں وہ اوڑھنے کو
کھاؤ تو پہلے لو خبر ان کی
جن پہ بپتا ہے نیستی کی پڑی
پہنو تو پہلے بھائیوں کو پہناؤ
کہ ہے اترن تمہاری جن کا بناؤ
ایک ڈالی کے سب ہیں برگ و ثمر
ہے کوئی ان میں خشک اور کوئی تر
سب کو ہے ایک اصل سے پیوند
کوئی آزردہ ہے کوئی خورسند
مقبلو! مدبروں کو یاد کرو
خوش دلو غم زدوں کو شاد کرو
جاگنے والے غافلوں کو جگاؤ
تیرنے والو ڈوبتوں کو تراؤ
ہیں ملے تم کو چشم و گوش اگر
لو جو لی جائے کور و کر کی خبر
تم اگر ہاتھ پاؤں رکھتے ہو
لنگڑے لولوں کو کچھ سہارا دو
تندرستی کا شکر کیا ہے بتاؤ
رنج بیمار بھائیوں کا ہٹاؤ
تم اگر چاہتے ہو ملک کی خیر
نہ کسی ہم وطن کو سمجھو غیر
ہو مسلمان اس میں یا ہندو
بودھ مذہب ہو یا کہ ہو برہمو
جعفری ہووے یا کہ ہو حنفی
جین مت ہووے یا ہو ویشنوی
سب کو میٹھی نگاہ سے دیکھو
سمجھو آنکھوں کی پتلیاں سب کو
ملک ہیں اتفاق سے آزاد
شہر ہیں اتفاق سے آباد
ہند میں اتفاق ہوتا اگر
کھاتے غیروں کی ٹھوکریں کیوں کر
قوم جب اتفاق کھو بیٹھی
اپنی پونجی سے ہات دھو بیٹھی
ایک کا ایک ہو گیا بد خواہ
لگی غیروں کی پڑنے تم پہ نگاہ
پھر گئے بھائیوں سے جب بھائی
جو نہ آنی تھی وہ بلا آئی
پاؤں اقبال کے اکھڑنے لگے
ملک پر سب کے ہاتھ پڑنے لگے
کبھی تورانیوں نے گھر لوٹا
کبھی درانیوں نے زر لوٹا
کبھی نادر نے قتل عام کیا
کبھی محمود نے غلام کیا
سب سے آخر کو لے گئی بازی
ایک شائستہ قوم مغرب کی
یہ بھی تم پر خدا کا تھا انعام
کہ پڑا تم کو ایسی قوم سے کام
ورنہ دم مارنے نہ پاتے تم
پڑتی جو سر پہ وہ اٹھاتے تم
ملک روندے گئے ہیں پیروں سے
چین کس کو ملا ہے غیروں سے
قوم سے جو تمہارے برتاؤ
سوچو اے میرے پیارو اور شرماؤ
اہل دولت کو ہے یہ استغنا
کہ نہیں بھائیوں کی کچھ پروا
شہر میں قحط کی دہائی ہے
جان عالم لبوں پہ آئی ہے
بچے اک گھر میں بلبلاتے ہیں
رو کے ماں باپ کو رلاتے ہیں
کوئی پھرتا ہے مانگتا در در
ہے کہیں پیٹ سے بندھا پتھر
پر جو ہیں ان میں صاحب مقدور
ان میں گنتی کے ہوں گے ایسے غیور
کہ جنہیں بھائیوں کا غم ہوگا
اپنی راحت کا دھیان کم ہوگا
جتنے دیکھو گے پاؤ گے بے درد
دل کے نامرد اور نام کے مرد
عیش میں جن کے کٹتے ہیں اوقات
عید ہے دن تو شبرات ہے رات
قوم مرتی ہے بھوک سے تو مرے
کام انہیں اپنے حلوے مانڈے سے
ان کو اب تک خبر نہیں اصلاً
شہر میں بھاؤ کیا ہے غلے کا
غلہ ارزاں ہے ان دنوں کہ گراں
کال ہے شہر میں پڑا کہ سماں
کال کیا شے ہے کس کو کہتے ہیں بھوک
بھوک میں کیونکہ مرتے ہیں مفلوک
سیر بھوکے کی قدر کیا سمجھے
اس کے نزدیک سب ہیں پیٹ بھرے
اہل دولت کا سن چکے تم حال
اب سنو روئیداد اہل کمال
فاضلوں کو ہے فاضلوں سے عناد
پنڈتوں میں پڑے ہوئے ہیں فساد
ہے طبیبوں میں نوک جھوک سدا
ایک سے ایک کا ہے تھوک جدا
رہنے دو اہل علم ہیں اس طرح
پہلوانوں میں لاگ ہو جس طرح
عیدو والوں کا ہے اگر پٹھا
شیخو والوں میں جا نہیں سکتا
شاعروں میں بھی ہے یہی تکرار
خوشنویسوں کو ہے یہی آزار
لاکھ نیکوں کا کیوں نہ ہو اک نیک
دیکھ سکتا نہیں ہے ایک کو ایک
اس پہ طرہ یہ ہے کہ اہل ہنر
دور سمجھے ہوئے ہیں اپنا گھر
ملی اک گانٹھ جس کو ہلدی کی
اس نے سمجھا کہ میں ہوں پنساری
نسخہ اک طب کا جس کو آتا ہے
سگے بھائی سے وہ چھپاتا ہے
جس کو آتا ہے پھونکنا کشتہ
ہے ہماری طرف سے وہ گونگا
جس کو ہے کچھ رمل میں معلومات
وہ نہیں کرتا سیدھے منہ سے بات
باپ بھائی ہو یا کہ ہو بیٹا
بھید پاتا نہیں منجم کا
کام کندلے کا جس کو ہے معلوم
ہے زمانہ میں اس کی بخل کی دھوم
الغرض جس کے پاس ہے کچھ چیز
جان سے بھی سوا ہے اس کو عزیز
قوم پر ان کا کچھ نہیں احساں
ان کا ہونا نہ ہونا ہے یکساں
سب کمالات اور ہنر ان کے
قبر میں ان کے ساتھ جائیں گے
قوم کیا کہہ کے ان کو روئے گی
نام پر کیوں کہ جان کھوئے گی
تربیت یافتہ ہیں جو یاں کے
خواہ بی اے ہوں اس میں یا ایم اے
بھرتے حب وطن کا گو دم ہیں
پر محب وطن بہت کم ہیں
قوم کو ان سے جو امیدیں تھیں
اب جو دیکھا تو سب غلط نکلیں
ہسٹری ان کی اور جیوگرفی
سات پردے میں منہ دیے ہے پڑی
بند اس قفل میں ہے علم ان کا
جس کی کنجی کا کچھ نہیں ہے پتا
لیتے ہیں اپنے دل ہی دل میں مزے
گویا گونگے کا گڑ ہیں کھائے ہوئے
کرتے پھرتے ہیں سیر گل تنہا
کوئی پاس ان کے جا نہیں سکتا
اہل انصاف شرم کی جا ہے
گر نہیں بخل یہ تو پھر کیا ہے
تم نے دیکھا ہے جو وہ سب کو دکھاؤ
تم نے چکھا ہے جو وہ سب کو چکھاؤ
یہ جو دولت تمہارے پاس ہے آج
ہم وطن اس کے ہیں بہت محتاج
منہ کو ایک اک تمہارے ہے تکتا
کہ نکلتا ہے منہ سے آپ کے کیا
آپ شائستہ ہیں تو اپنے لیے
کچھ سلوک اپنی قوم سے بھی کیے
میز کرسی اگر لگاتے ہیں آپ
قوم سے پوچھئے تو پن ہے نہ پاپ
منڈا جوتا گر آپ کو ہے پسند
قوم کو اس سے فائدہ نہ گزند
قوم پر کرتے ہو اگر احساں
تو دکھاؤ کچھ اپنا جوش نہاں
کچھ دنوں عیش میں خلل ڈالو
پیٹ میں جو ہے سب اگل ڈالو
علم کو کر دو کو بہ کو ارزاں
ہند کو کر دکھاؤ انگلستاں
سنتے ہو سامعین با تمکیں
سنتے ہو حاضرین صدر نشیں
جو ہیں دنیا میں قوم کے ہمدرد
بندۂ قوم ان کے ہیں زن و مرد
باپ کی ہے دعا یہ بہر پسر
قوم کی میں بناؤں اس کو سپر
ماں خدا سے یہ مانگتی ہے مراد
قوم پر سے نثار ہو اولاد
بھائی آپس میں کرتے ہیں پیماں
تو اگر مال دے تو میں دوں جاں
اہل ہمت کما کے لاتے ہیں
ہم وطن فائدے اٹھاتے ہیں
کہیں ہوتے ہیں مدرسے جاری
دخل اور خرج جن کے ہیں بھاری
اور کہیں ہوتے ہیں کلب قائم
مبحث حکمت اور ادب قائم
نت نئے کھلتے ہیں دوا خانے
بنتے ہیں سیکڑوں شفا خانے
ملک میں جو مرض ہیں عالم گیر
قوم پر ان کی فرض ہے تدبیر
ہیں سدا اس ادھیڑ بن میں طبیب
کہ کوئی نسخہ ہاتھ آئے عجیب
قوم کو پہنچے منفعت جس سے
ملک میں پھیلیں فائدے جس کے
کھپ گئے کتنے بن کے جھاڑوں میں
مر گئے سیکڑوں پہاڑوں میں
لکھے جب تک جیے سفر نامے
چل دیے ہاتھ میں قلم تھامے
گو سفر میں اٹھائے رنج کمال
کر دیا پر وطن کو اپنے نہال
ہیں اب ان کے گواہ حب وطن
در و دیوار پیرس و لندن
کام ہیں سب بشر کے ہم وطنوں
تم سے بھی ہو سکے تو مرد بنو
چھوڑو افسردگی کو جوش میں آؤ
بس بہت سوئے اٹھو ہوش میں آؤ
قافلے تم سے بڑھ گئے کوسوں
رہے جاتے ہو سب سے پیچھے کیوں
قافلوں سے اگر ملا چاہو
ملک اور قوم کا بھلا چاہو
گر رہا چاہتے ہو عزت سے
بھائیوں کو نکالو ذلت سے
ان کی عزت تمہاری عزت ہے
ان کی ذلت تمہاری ذلت ہے
قوم کا مبتدل ہے جو انساں
بے حقیقت ہے گرچہ ہے سلطاں
قوم دنیا میں جس کی ہے ممتاز
ہے فقیری میں بھی وہ با اعزاز
عزت قوم چاہتے ہو اگر
جا کے پھیلاؤ ان میں علم و ہنر
ذات کا فخر اور نسب کا غرور
اٹھ گئے اب جہاں سے یہ دستور
اب نہ سید کا افتخار صحیح
نہ برہمن کو شدر پر ترجیح
ہوئی ترکی تمام خانوں میں
کٹ گئی جڑ سے خاندانوں میں
قوم کی عزت اب ہنر سے ہے
علم سے یا کہ سیم و زر سے ہے
کوئی دن میں وہ دور آئے گا
بے ہنر بھیک تک نہ پائے گا
نہ رہیں گے سدا یہی دن رات
یاد رکھنا ہماری آج کی بات
گر نہیں سنتے قول حالیؔ کا
پھر نہ کہنا کہ کوئی کہتا تھا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.