حجاب گنج مخفی میں نہاں تھے

حجاب گنج مخفی میں نہاں تھے
by عبدالعلیم آسی
331101حجاب گنج مخفی میں نہاں تھےعبدالعلیم آسی

حجاب گنج مخفی میں نہاں تھے
الٰہی ہم کہاں آئے کہاں تھے

کسی نے بھی نہ دیکھا ہم جہاں تھے
بدن تھے خلق ہم مانند جاں تھے

بسان نالہ سر کھینچا ہے باہر
ہم اہل درد کے دل میں نہاں تھے

نکالا کرتے تھے بالوں کی کھالیں
کبھی ہم بھی خیال شاعراں تھے

رہے رستے میں قدموں سے چپٹ کر
مگر ہم نقش پائے رفتگاں تھے

جب اس کوچے کی حاصل تھی گدائی
خداوند زمین و آسماں تھے

ہوئے ظاہر بسان نور باطن
دل ارباب دل میں ہم نہاں تھے

ترے کوچے میں جب چلنا پڑا تھا
بسان اشک آنکھوں سے رواں تھے

کچھ ایسے نشۂ ہستی سے بہکے
نہیں جانا کہاں آئے کہاں تھے

سراپا درد تھے مانند دل ہم
مرض تھے پر نصیب دوستاں تھے

کہاں بات اس کی الفت کی کہاں دل
یہ درہم گنج مخفی میں نہاں تھے

نہ دوڑے جز سوائے کوچۂ یار
مگر ہم بھی خیال دوستاں تھے

نہ کیوں صیاد وقت مرگ آتا
کہ ہم باغ جہاں میں مرغ جاں تھے

نہ ہرگز بزم ساقی میں رکے ہم
مگر دور‌‌ شراب ارغواں تھے

حمائل تھے گلوئے دخت رز میں
کے ہم دست خیال میکشاں تھے

رہی راتوں کو اکثر سیر افلاک
مگر ہم تیر آہ بے کساں تھے

کہاں ڈالا خلل وصل عدوین
گجر ہی تھے نہ ہم بانگ اذاں تھے

بہار باغ ہستی تھی ہمیں سے
نظر سے گو برنگ بو نہاں تھے

عیاں ایسے کہ ہر شے میں نہاں ہم
نہاں ایسے کہ ہر شے سے عیاں تھے

نہ تھا معشوق جس میں غیر عاشق
عجب خلوت تھی وہ بھی ہم جہاں تھے

اٹھے ہم اٹھ گیا پردا دوئی کا
ہمارے اس کے بس ہم درمیاں تھے

چلیں زیر زمیں بے بال و پر آج
کبھی ہم طائر عرش آشیاں تھے

نہ شکر اس کا کیا تلوار کھا کر
کہ زخم اپنے دہان بے زباں تھے

کچھ ایسی تھی شب غم کی چڑھائی
کہ نالے شمع بزم لامکاں تھے

گئے وہ دن کہ ہر دم یہ جگر دل
لہو بن بن کے آنکھوں سے رواں تھے

نہ رہتے تھے ٹھکانے ایک ساعت
کبھی ہم بھی حواس عاشقاں تھے

گلستان جہاں میں کون ٹھہرا
جو سرو آئے نظر سرو رواں تھے

خدا نے ان کو پہنچایا ہدف تک
خدنگ آہ تیر بے کماں تھے

جو اس محفل میں ہم جانے بھی پائے
پیا پے آنسو آنکھوں سے رواں تھے

نہ نکلی بات منہ سے صور شمع
زبان ایسی تھی گویا بے زباں تھے

مرے پہلو میں کل بیٹھے تھے آسی
مگر جب تک تھے مثل دل تپاں تھے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.