حجامت (1955)
by سعادت حسن منٹو
325063حجامت1955سعادت حسن منٹو

’’میری تو آپ نے زندگی حرام کر رکھی ہے۔۔۔ خدا کرے میں مر جاؤں۔‘‘

’’اپنے مرنے کی دعائیں کیوں مانگتی ہو۔ میں مر جاؤں تو سارا قصہ پاک ہو جائے گا۔۔۔ کہو تو میں ابھی خود کشی کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہاں پاس ہی افیم کا ٹھیکہ ہے۔ ایک تولہ افیم کافی ہوگی۔‘‘

’’جاؤ، سوچتے کیا ہو۔‘‘

’’جاتا ہوں۔۔۔ تم اٹھو اور مجھے۔۔۔ معلوم نہیں ایک تولہ افیم کتنے میں آتی ہے۔ تم مجھے اندازاً دس روپے دے دو۔‘‘

’’ دس روپے؟‘‘

’’ہاں بھئی۔۔۔ اپنی جان گنوانی ہے۔۔۔ دس روپے زیادہ تو نہیں۔‘‘

’’میں نہیں دے سکتی۔‘‘

’’ضرور آپ کو افیم کھاکے ہی مرنا ہے؟‘‘

’’سنکھیا بھی ہوسکتی ہے۔‘‘

’’کتنے میں آئے گی؟‘‘

’’معلوم نہیں۔۔۔ میں نے آج تک کبھی سنکھیا نہیں کھائی۔‘‘

’’آپ کو ہر چیز کا علم ہے۔ بنتے کیوں ہیں؟‘‘

’’بنا تم مجھے رہی ہو۔۔۔ بھلا مجھے زہروں کی قیمتوں کے متعلق کیا علم ہو سکتا ہے۔‘‘

’’آپ کو ہر چیز کا علم ہے۔‘‘

’’ تمہارے متعلق تو میں ابھی تک کچھ بھی نہ جان سکا۔‘‘

’’اس لیے کہ آپ نے میرے متعلق کبھی سوچا ہی نہیں۔‘‘

’’یہ صریحاً تمہاری زیادتی ہے۔۔۔ پانچ برس ہوگئے ہیں۔ تم ان میں سے کوئی ایسا دن پیش کرو جب میں نے تمہارے متعلق نہ سوچا ہو۔‘‘

’’ہٹائیے۔۔۔ ان پانچ برسوں کے جتنے دن ہوتے ہیں، ان میں آپ مجھ سے یہی خرافات کہتے رہے ہیں۔‘‘

’’تم حقیقت کو خرافات کہتی ہو۔۔۔؟میں اب کیا کہوں۔‘‘

’’ جو کہنا چاہتے ہیں کہہ ڈالیے۔۔۔ آپ کی زبان میں لگام ہی کہاں ہے۔‘‘

’’پھر تم نے بد زبانی شروع کردی۔‘‘

’’بد زبان تو آپ ہیں۔۔۔ میں نے ان پانچ برسوں میں، آپ سر پر قرآن اٹھا کرکہیے، کب آپ سے اس قسم کی گستاخی کی ہے؟ گستاخ ہوں گے آپ کے۔۔۔‘‘

’’رک کیوں گئی ہو۔۔۔ جو کہنا چاہتی ہو کہہ دو۔‘‘

’’میں کچھ کہنا نہیں چاہتی۔۔۔ آپ سے کوئی کیا کہے۔۔۔ آپ تو یہ چاہتے ہیں کہ آدمی کو تکلیف پہنچے، لیکن وہ اف بھی نہ کرے۔ میں تو ایسی زندگی سے گھبرا گئی ہوں۔‘‘

’’تم چاہتی کیا ہو، یہ بھی تو پتا چلے۔‘‘

’’میں کچھ نہیں چاہتی۔‘‘

’’پھر یہ گلے شکوے کیا معنی رکھتے ہیں؟‘‘

’’ان کے معنی آپ بخوبی سمجھتے ہیں۔۔۔ انجان کیوں بنتے ہیں؟ ان گلے شکوؤں کے پیچھے کوئی بات تو ہوگی۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’ میں کیا جانوں۔‘‘

’’ یہ عجیب منطق ہے۔۔۔ خود ہی پھاڑتی ہو خود ہی رفو کرتی ہو۔۔۔ جو صحیح بات ہے اس کو بتاتی کیوں نہیں ہو۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا یہ ہر روز کے جھگڑے ہمیں کہاں لے جائیں گے۔‘‘

’’ جہنم میں‘‘۔

’’ وہاں بھی تو ہمارا ساتھ ہوگا۔‘‘

’’ میں تو وہاں بالکل نہیں جاؤں گی۔‘‘

’’ تو کہاں ہوگی تم؟‘‘

’’مجھے معلوم نہیں۔‘‘

’’تمہیں بہت سی باتیں معلوم نہیں ہوتیں۔۔۔ سب سے بڑی بات میری محبت ہے، جس کا احساس تمہیں ابھی تک نہیں ہوا۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا۔۔۔ یا میں نے اس کے اظہار میں بخل کیا ہے، یا تم میں وہ حس نہیں جو اس جذبے کو پہچان سکے۔‘‘ ’’اصل میں بے حس تو آپ ہیں۔‘‘

’’کیسے؟‘‘

’’یہ بھی کوئی بات ہے۔ ان پانچ برسوں میں ہر روز۔۔۔ ہر روز۔۔۔‘‘

’’یہی تو میری محبت کا ثبوت ہے۔‘‘

’’ لعنت ہے ایسی محبت پر کہ آدمی تنگ آجائے۔‘‘

’’ محبت سے کون تنگ آسکتا ہے؟‘‘

’’میری مثال موجود ہے۔‘‘

’’اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے اقرار کیا ہے کہ میں تم سے محبت کرتا ہوں؟‘‘

’’میں نے کب اقرار کیا ہے؟‘‘

’’یہ اقرار ہی تو تھا۔‘‘

’’ ہوگا۔‘‘

’’ ہوگا نہیں۔۔۔ تھا۔۔۔ لیکن تم مانو گی نہیں، اس لیے کہ ضدی ہو۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ عورتوں کی نفسیات کیا ہیں۔ جب ان سے پیار کیا جائے تو گھبرا جاتی ہیں اور جب ان سے ذرا بے اعتنائی برتی جائے تو برہم ہو جاتی ہیں۔‘‘

’’محض بکواس ہے۔‘‘

’’اس لیے کہ یہ پر خلوص خاوند کی زبان سے نکلی ہے۔‘‘

’’ہٹائیے۔۔۔ آپ کا خلوص میں دیکھ چکی ہوں۔‘‘

’’جب دیکھ چکی ہو تو ایمان کیوں نہیں لاتی ہو؟‘‘

’’مجھے تنگ نہ کیجیے، میری طبیعت خراب ہے۔ مجھے کوئی چیز اچھی نہیں لگتی۔۔۔‘‘

’’اپنے آپ کو بھی اچھا نہیں سمجھتی؟‘‘

’’ خدا کی قسم۔۔۔ آج نہیں۔‘‘

’’ کل تو اچھا سمجھو گی؟‘‘

’’مجھے کچھ معلوم نہیں۔‘‘

’’یہ عجیب بات ہے کہ تمہیں سب کچھ معلوم ہوتا ہے۔۔۔ مگر تمہیں معلوم نہیں ہوتا۔۔۔ یہ کیا سلسلہ ہے۔۔۔؟ تم صاف الفاظ میں یہ کیوں نہیں کہہ دیتیں کہ تم مجھ سے نفرت کرتی ہو۔‘‘

’’ تو سن لیجیے۔۔۔ میں آپ سے نفرت کرتی ہوں۔‘‘

’’مجھے یہ سن کر بڑا دکھ ہوا ہے۔۔۔ میں نے تمہاری ہر آسائش کا خیال رکھا۔۔۔‘‘

’’لیکن ایک بات کا خیال نہیں رکھا۔‘‘

’’کس بات کا؟‘‘

’’ آپ عقل مند ہیں۔۔۔ خود سمجھیے ۔۔۔ میں کیوں بتاؤں۔‘‘

’’ کوئی اشارہ تو کردو۔‘‘

’’میں ایسی اشارہ بازیاں نہیں جانتی۔‘‘

’’ تم نے ایسی گفتگو کہاں سے سیکھی ہے؟‘‘

’’آپ سے‘‘

’’ مجھ سے۔۔۔؟ مجھے حیرت ہے کہ یہ الزام تم نے مجھ پر کیوں لگایا ہے؟‘‘

’’ آپ پر تو ہر الزام لگ سکتا ہے۔‘‘

’’ مثال کے طور پر؟‘‘

’’میں آپ کو مثال نہیں دے سکتی۔۔۔ خدا کے لیے یہ گفتگو بند کیجیے، میں تنگ آگئی ہوں۔۔۔ بس، میں نے کہہ دیا ہے کہ مجھے۔۔۔‘‘

’’کیا؟‘‘

’’یااللہ میری توبہ۔۔۔! مجھے زیادہ تنگ نہ کیجیے۔۔۔ میرا جی چاہتا ہے اپنے سر کے بال نوچنا شروع کردوں۔‘‘

’’ میرا سر موجود ہے۔۔۔ تم اس کے بال بڑے شوق سے نوچ سکتی ہو۔‘‘

’’آپ کو تو اپنے بال بڑے عزیز ہیں۔‘‘

’’انسان کو اپنی ہر چیز عزیز ہوتی ہے۔‘‘

’’لیکن مردوں کے سر پر بالوں کے چھتے بھڑوں کے چھتے معلوم ہوتے ہیں۔۔۔ آپ معلوم نہیں بال کٹوانے سے کیوں پرہیز کرتے ہیں۔‘‘

’’ میں پرہیزی آدمی ہوں۔‘‘

’’اس قدر جھوٹ۔۔۔ ابھی پرسوں آپ نے مجھ سے کہا کہ آپ نے ایک پارٹی میں شراب پی تھی۔‘‘

’’ لاحول ولا۔۔۔ میں نے تو صرف شیری کا ایک گلاس پیا تھا۔‘‘

’’ وہ کیا بلا ہوتی ہے؟‘‘

’’ بڑی بے ضرر قسم کی چیز ہے۔‘‘

’’ تمہاری بد زبانیاں کہیں مجھے بھی بد زبان نہ بنا دیں۔‘‘

’’ جیسے آپ بدزبان نہیں ہیں۔‘‘

’’بدزبان تمہارا باپ تھا۔۔۔ جانتی ہو۔۔۔ وہ ہر بات میں مغلظات بکتا تھا۔‘‘

’’میں کہتی ہوں میرے موئے باپ کے متعلق کچھ نہ کہئے۔۔۔ آپ بڑے واہیات ہوتے جارہے ہیں۔‘‘

’’واہیات کیسے ہوتا جارہا ہوں؟‘‘

’’ میں نہیں جانتی۔‘‘

’’جاننے کے بغیر تم نے یہ فتویٰ کیسے عائد کردیا؟‘‘

’’میں یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ آپ نے اتنے بال کیوں بڑھا رکھے ہیں، مجھے وحشت ہوتی ہے۔‘‘

’’ بس اتنی سی بات تھی جس کو تم نے بتنگڑ بنا دیا۔۔۔ میں جارہا ہوں۔‘‘

’’ کہاں؟‘‘

’’ بس جارہا ہوں۔‘‘

’’ خدا کے لیے مجھے بتا دیجیے۔۔۔ میں خود کشی کرلوں گی۔‘‘

’’میں نصرت ہیئر کٹنگ سیلون میں جارہا ہوں۔‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.