حرم کو شیخ مت جا ہے بت دل خواہ صورت میں

حرم کو شیخ مت جا ہے بت دل خواہ صورت میں
by شاہ نصیر

حرم کو شیخ مت جا ہے بت دل خواہ صورت میں
اگر ہے مرد معنی دیکھ لے اللہ صورت میں

نظر کر اس کی ٹک نیرنگیوں پر چشم حیرت سے
کہیں گل ہے کہیں کانٹا کہیں ہے کاہ صورت میں

صنم کی سطر ابرو کاتب قدرت نے لکھی ہے
کلید علم معنی ہے یہ بسم اللہ صورت میں

سبو و جام پر کم ظرف کرتے ہیں نظر ورنہ
بنے ہیں ایک مٹی کے گدا و شاہ صورت میں

مرا وہ طفل ابجد خواں پڑھے کیوں کر نہ اب ہجے
بغیر اس قاعدے کے ہو سکے کب راہ صورت میں

جدا دیوار سے کب طاق ہے کوئی بتاؤ تو
دکھائی دے ہے پر احوال کو دو اک ماہ صورت میں

کر اپنے دل کو صیقل اے سکندر تا ہو یہ روشن
صفا سے آئنے کے کب خلل ہے آہ صورت میں

گیا ہوگا طرف کعبہ کی جو محرم نہیں اس سے
کہ حاجی اس کے آمد رفت کی ہے راہ صورت میں

نصیرؔ اس کی ذقن میں بند ہے وہ یوسف کنعاں
نکلتی ہے عزیزو دیکھ لو کیا چاہ صورت میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse