حسن اس شوخ کا اہا ہاہا

حسن اس شوخ کا اہا ہاہا
by نظیر اکبر آبادی

حسن اس شوخ کا اہا ہاہا
جن نے دیکھا کہا اہا ہاہا

زلف ڈالے ہے گردن دل میں
دام کیا کیا بڑھا اہا ہاہا

تیغ ابرو بھی کرتی ہے دل پر
وار کیا کیا نیا اہا ہاہا

آن پر آن وہ اجی او ہو
اور ادا پر ادا اہا ہاہا

ناز سے جو نہ ہو وہ کرتی ہے
چپکے چپکے حیا اہا ہاہا

طائر دل پہ اس کا باز نگاہ
جس گھڑی آ پڑا اہا ہاہا

اس کی پھرتی اور اس کی لپ چھپ کا
کیا تماشا ہوا اہا ہاہا

بزم خوباں میں جب گیا وہ شوخ
اپنی سج دھج بنا اہا ہاہا

کی او ہو ہو کسی نے دیکھ نظیرؔ
کوئی کہنے لگا اہا ہاہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse