حسن اے جان نہیں رہنے کا
حسن اے جان نہیں رہنے کا
پھر یہ احسان نہیں رہنے کا
نذر کی جیب تو اے جوش جنوں
اب یہ دامان نہیں رہنے کا
پردہ مت منہ سے اٹھانا یکبار
مجھ میں اوسان نہیں رہنے کا
تو چلا اور یہ جی اس تن میں
کسی عنوان نہیں رہنے کا
گل کو کیا روتی ہے تو اے بلبل
یہ گلستان نہیں رہنے کا
دم کا میہماں ہوں میں اب بھی تو
آ کے مہمان نہیں رہنے کا
نبڑی مے اور گلستان میں گل
تیرے قربان نہیں رہنے کا
اب بھی آنا ہے تو آ ورنہ میاں
یہ بھی سامان نہیں رہنے کا
دل کی درخواست جو کی تو نے تو یاں
اب یہ اک آن نہیں رہنے کا
ایسے میں اپنی امانت لے جا
پھر تجھے دھیان نہیں رہنے کا
ہجر کے غم سے نہ گھبرا جرأتؔ
اتنا حیران نہیں رہنے کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |