حسن بے مہر کو پروائے تمنا کیا ہو
حسن بے مہر کو پروائے تمنا کیا ہو
جب ہو ایسا تو علاج دل شیدا کیا ہو
کثرت حسن کی یہ شان نہ دیکھی نہ سنی
برق لرزاں ہے کوئی گرم تماشا کیا ہو
بے مثالی کے ہیں یہ رنگ جو باوصف حجاب
بے نقابی پر ترا جلوۂ یکتا کیا ہو
دیکھیں ہم بھی جو ترے حسن دل آرا کی بہار
اس میں نقصان ترا اے گل رعنا کیا ہو
ہم غرض مند کہاں مرتبۂ عشق کہاں
ہم کو سمجھیں وہ ہوس کار تو بے جا کیا ہو
دل فریبی ہے تری باعث صد جوش و خروش
حال یہ ہو تو دل زار شکیبا کیا ہو
رات دن رہنے لگی اس ستم ایجاد کی یاد
حسرتؔ اب دیکھیے انجام ہمارا کیا ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |