حسن سرشار ترا داروۓ بے ہوشی ہے
حسن سرشار ترا داروۓ بے ہوشی ہے
ہوش میں کون ہے کس کو سر مے نوشی ہے
کچھ اگر بے ادبی ہووے تو معذور رکھو
صحبت میکشی و عالم بے ہوشی ہے
جوں ہلال آپ سے یکسر میں ہوا ہوں خالی
تجھ سے اے مہر لقا شوق ہم آغوشی ہے
بانگ گل باعث گردن شکنی ہے گل کی
غنچہ سالم ہے کہ جب تک اسے خاموشی ہے
سر چڑھا جائے ہے اے زلف کسو کی تو مگر
اس پری رو سے تجھے آج جو سرگوشی ہے
آپ ہو جائے ہے اس تیغ نگہ کے آگے
گرچہ آئینہ کے جوہر سے ذرا پوشی ہے
عمر غفلت ہی میں بیدارؔ چلی جانی ہے
یاد ہے جس کی غرض اس سے فراموشی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |